الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: صلاۃ کے احکام و مسائل
The Book of the Prayer
10. بَابُ : مَنْ نَامَ عَنِ الصَّلاَةِ أَوْ نَسِيَهَا
10. باب: نماز کے وقت سو جائے یا اسے پڑھنا بھول جائے تو کیا کرے؟
Chapter: Whoever Sleeps Through Prayer Or Forgets it
حدیث نمبر: 695
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا يزيد بن زريع ، حدثنا حجاج ، حدثنا قتادة ، عن انس بن مالك ، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الرجل يغفل عن الصلاة، او يرقد عنها؟ قال:" يصليها إذا ذكرها".
(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَغْفُلُ عَنِ الصَّلَاةِ، أَوْ يَرْقُدُ عَنْهَا؟ قَالَ:" يُصَلِّيهَا إِذَا ذَكَرَهَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو نماز سے غافل ہو جائے، یا سو جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب یاد آ جائے تو پڑھ لے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/المواقیت 52 (615)، (تحفة الأشراف: 1151)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الموا قیت 37 (597)، صحیح مسلم/المساجد 55 (684)، سنن ابی داود/الصلاة 11 (442)، سنن الترمذی/الصلاة 17 (178)، مسند احمد (3/100، 243، 266، 269، 282)، سنن الدارمی/الصلاة 26 (1265) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے وہی اس کا وقت ہے یعنی جس وقت جاگ کر اٹھے یا جب نماز یاد آ جائے اسی وقت پڑھ لے، اگرچہ اس وقت سورج نکلنے یا ڈوبنے کا وقت ہو یا ٹھیک دوپہر کا وقت ہو، یا فجر یا عصر کے بعد یاد آئے، کیونکہ یہ حدیث عام ہے، اور اس سے ان احادیث کی تخصیص ہو گئی جس میں ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، یہی قول امام احمد کا ہے، اور بعضوں نے کہا نماز پڑھے جب تک سورج نہ نکلے یا ڈوب نہ جائے، اور یہ قول حنفیہ کا ہے، کیونکہ بخاری نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جب سورج کا کنارہ نکلے تو نماز میں دیر کرو، یہاں تک کہ سورج اونچا ہو جائے، اور جب سورج کا کنارہ غائب ہو جائے، تو نماز میں دیر کرو یہاں تک کہ بالکل غائب ہو جائے۔

It was narrated that Anas bin Malik said: 'The Prophet was asked about a man who forgets prayer or sleeps and misses it. He said: 'he performs it when he remembers it.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح البخاري597أنس بن مالكمن نسي صلاة فليصل إذا ذكرها لا كفارة لها إلا ذلك وأقم الصلاة لذكري
   صحيح مسلم1566أنس بن مالكمن نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها لا كفارة لها إلا ذلك
   صحيح مسلم1569أنس بن مالكإذا رقد أحدكم عن الصلاة أو غفل عنها فليصلها إذا ذكرها فإن الله يقول أقم الصلاة لذكري
   صحيح مسلم1568أنس بن مالكمن نسي صلاة أو نام عنها فكفارتها أن يصليها إذا ذكرها
   جامع الترمذي178أنس بن مالكمن نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها
   سنن أبي داود442أنس بن مالكمن نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها لا كفارة لها إلا ذلك
   سنن النسائى الصغرى614أنس بن مالكمن نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها
   سنن النسائى الصغرى615أنس بن مالككفارتها أن يصليها إذا ذكرها
   سنن ابن ماجه696أنس بن مالكمن نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها
   سنن ابن ماجه695أنس بن مالكيصليها إذا ذكرها
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 695 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث695  
اردو حاشہ:
(1)
بھول اور نیند عذر ہے جس کی وجہ سے نماز تاخیر کا گناہ نہیں ہوتا بشرطیکہ اس میں بے پرواہی کو دخل نہ ہو۔

(2)
بھول سے رہ جانے والی نماز یاد آنے پر فوراً ادا کرلینی چاہیے بلا وجہ مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

(3)
اگر نیند سے اس وقت بیدار ہو جب نماز کا وقت گزر چکا ہو تو اسی وقت نماز پڑھ لے بشرطیکہ کراہت کا وقت نہ ہو۔
ایک حدیث میں ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَاتَحَرَّوا بِصَلٰوتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوْبِهَا) (صحيح البخاري، مواقيت الصلاة، باب الصلاة بعد الفجر حتي ترتفع الشمس، حديث: 582)
جان بوجھ کر نماز سورج طلوع یا غروب ہوتے وقت نہ پڑھو۔
۔
جس شخص کو مکروہ وقت میں نماز یاد آئی یا اس وقت جاگا تو وہ مکروہ وقت گزار کر نماز پڑھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 695   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 597  
´جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب یاد آئے اس وقت پڑھ لے اور فقط وہی نماز پڑھے`
«. . . عَنْ أَنَسِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ، وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي "، قَالَ مُوسَى: قَالَ هَمَّامٌ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ بَعْدُ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ للذِّكْرَى، وَقَالَ حَبَّانُ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ . . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اس کو پڑھ لے۔ اس قضاء کے سوا اور کوئی کفارہ اس کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اور (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ) نماز میرے یاد آنے پر قائم کر۔ موسیٰ نے کہا کہ ہم سے ہمام نے حدیث بیان کی کہ میں نے قتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ یوں پڑھتے تھے نماز پڑھ میری یاد کے لیے۔ حبان بن ہلال نے کہا، ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر ایسی ہی حدیث بیان کی۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَنْ نَسِيَ صَلاَةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا وَلاَ يُعِيدُ إِلاَّ تِلْكَ الصَّلاَةَ:: 597]
تشریح:
اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ قضاء شدہ نماز دو بار پڑھے، ایک بار جب یاد آئے اور دوسری بار دوسرے دن اس کے وقت پر پڑھے۔ اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت شریفہ «واقم الصلوٰة لذكري» اس لیے تلاوت فرمائی کہ قضاء نماز جب بھی یاد آ جائے اس کا وہی وقت ہے۔ اسی وقت اسے پڑھ لیا جائے۔

شارحین لکھتے ہیں:
«في الاية وجوه من المعاني اقربها مناسبة بذلك الحديث ان يقال اقم الصلوٰة وقت ذكرها فان ذكرالصلوٰة هو ذكرالله تعالىٰ اويقدر المضاف فيقال اقم الصلوٰة وقت ذكر صلوٰتي» یعنی نماز یاد آنے کے وقت پر قائم کرو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 597   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 597  
597. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں: آپ نے فرمایا: جو شخص نماز بھول جائے تو یاد آتے ہی اسے پڑھ لے، اس کا یہی کفارہ ہے۔ فرمان الہٰی ہے: میری یاد کے لیے نماز قائم کیجیے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق قتادہ نے آیت کریمہ کو بایں الفاظ تلاوت فرمایا: أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي۔ حبان نے کہا: ہم سے ہمام نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے قتادہ نے، انہوں نے کہا: ہم سے حضرت انس ؓ نے بیان کیا، وہ نبی ﷺ سے ایسی ہی حدیث بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:597]
حدیث حاشیہ:
اس سے امام بخاری ؒ کا مقصد ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ قضاء شدہ نماز دو بار پڑھے، ایک بار جب یاد آئے اوردوسری بار دوسرے دن اس کے وقت پر پڑھے۔
اس موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے آیت شریفہ وأقم الصلوٰة لذکري اس لیے تلاوت فرمائی کہ قضا نماز جب بھی یاد آجائے، اس کا وہی وقت ہے۔
اسی وقت اسے پڑھ لیا جائے۔
شارحین لکھتے ہیں:
في الآیة وجوہ من المعاني أقربها مناسبة بذلك الحدیث أن یقال أقم الصلوٰة وقت ذکرها فإن ذکرالصلوٰة هو ذکراللہ تعالیٰ أو یقدر المضاف فیقال أقم الصلوٰة وقت ذکر صلوٰتي یعنی نماز یاد آنے کے وقت پر قائم کرو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 597   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 442  
´جو نماز کے وقت سو جائے یا اسے بھول جائے تو کیا کرے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب یاد آئے اسے پڑھ لے، یہی اس کا کفارہ ہے اس کے علاوہ اس کا کوئی اور کفارہ نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 442]
442۔ اردو حاشیہ:
روزے اور حج کی طرح نماز کا کوئی مالی و بدنی کفارہ نہیں ہے، کوئی دوسرا کسی کی جانب سے نماز ادا نہیں کر سکتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 442   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 614  
´جو شخص نماز بھول جائے تو کیا کرے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز بھول جائے، جب یاد آ جائے تو اسے پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 614]
614 ۔ اردو حاشیہ: معلوم ہوا فرض نماز کی قضا کے لیے کوئی وقت مکروہ نہیں ہے، جب بھی یاد آئے یا بیدار ہو، نماز پڑھ لے۔ یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔ اوقات مکروہ والی روایت بلا سبب نفل نماز کے لیے ہے، البتہ احناف کا خیال ہے کہ طلوع، غروب اور استوا کے اوقات میں نماز کو مؤخر کیا جائے مگر بہت سی روایات جو پیچھے گزر چکی ہیں، ان اوقات میں فرض نماز پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 614   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1569  
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز سے سویا رہے یا اس سے غافل ہو جائے تو اسے یاد آنے پر پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: میری یاد کے لیے نماز پڑھو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1569]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جس وقت بھی نیند سے بیدار ہو یا بھول جانے کی صورت میں جب نماز یاد آ جائے وہ نماز پڑھ لے گا۔
ہاں بلاسبب اورعمداً اوقات مکروہ میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ اوقات مکروہ میں نماز کی قضائی دی جا سکتی ہے۔
احناف کے نزدیک ان اوقات میں نماز کی قضائی دینا بھی درست نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1569   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:597  
597. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں: آپ نے فرمایا: جو شخص نماز بھول جائے تو یاد آتے ہی اسے پڑھ لے، اس کا یہی کفارہ ہے۔ فرمان الہٰی ہے: میری یاد کے لیے نماز قائم کیجیے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق قتادہ نے آیت کریمہ کو بایں الفاظ تلاوت فرمایا: أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي۔ حبان نے کہا: ہم سے ہمام نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے قتادہ نے، انہوں نے کہا: ہم سے حضرت انس ؓ نے بیان کیا، وہ نبی ﷺ سے ایسی ہی حدیث بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:597]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت بایں الفاظ ہے:
جو بھول جائے یا سوجائے تو جب بھی یاد آئے یا بیدار ہو تو فوت شدہ نماز ادا کرے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1568(684)
ایک روایت میں ہے کہ اگلے دن اسے اپنے وقت پر پڑھے۔
(سنن ابی داود، الصلاة، حدیث: 437)
اس اضافے سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ فوت شدہ نماز کو دو مرتبہ ادا کرے:
ایک مرتبہ جب یاد آئے اور پھر دوسرے دن اسے اپنے وقت پر بھی پڑھے۔
لیکن حدیث کے الفاظ اس کے متعلق نص صریح کی حیثیت نہیں رکھتے، کیونکہ ان الفاظ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ آئندہ دن موجودہ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرے، سستی سے کام نہ لے، ایسا نہ ہوکے اگلے دن پھر بروقت نہ پڑھ سکے اور یہی معنی راجح ہیں۔
اور جہاں تک ابو داود کی حدیث (438)
کا تعلق ہے، جس میں دوبارہ نماز ادا کرنے کی صراحت ہے تو وہ شاذ ہے۔
تفصیل کےلیے دیکھیے:
(ضعيف سنن أبي داود للألباني، حديث: 41) (2)
امام بخاری ؒ نے أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي کے متعلق دوقراءتوں کا ذکر کیا ہے:
٭ابو نعیم اور موسیٰ بن اسماعیل کے بیان کے مطابق لفظ "ذکر" یائے متکلم کی طرف مضاف ہے۔
٭صرف موسیٰ کے بیان کے مطابق یہ لفظ اسم مقصور ہے، یعنی آخر میں یائے متکلم کے بجائے الف مقصورہ ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے کسی راوی نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی۔
لیکن صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہےکہ خود رسول اللہ ﷺ نے اسے تلاوت فرمایا، چنانچہ حدیث کے الفاظ ہیں:
جو شخص نماز سے سورہے یا غفلت کرے تو اسے چاہیے کہ یاد آنے پر اسے پڑھ لے۔
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
میری یاد کےلیے نماز قائم کرو۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1569(684)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہےکہ آیت کریمہ کی تلاوت خود رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے، نیز امام بخاری ؒ نے آخر میں ایک تعلیق بیان کر کے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ قتادہ کا حضرت انس ؓ سے سماع ثابت ہے۔
اس تعلیق کو محدث ابو عوانہ نے اپنی"صحیح" میں متصل سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 95/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 597   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.