الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: صلاۃ کے احکام و مسائل
The Book of the Prayer
7. بَابُ : وَقْتِ صَلاَةِ الْمَغْرِبِ
7. باب: نماز مغرب کا وقت۔
Chapter: The Time Of The Maghrib Prayer
حدیث نمبر: 687
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا الاوزاعي ، حدثنا ابو النجاشي ، قال: سمعت رافع بن خديج ، يقول:" كنا نصلي المغرب على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فينصرف احدنا، وإنه لينظر إلى مواقع نبله".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّجَاشِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ ، يَقُولُ:" كُنَّا نُصَلِّي الْمَغْرِبَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْصَرِفُ أَحَدُنَا، وَإِنَّهُ لَيَنْظُرُ إِلَى مَوَاقِعِ نَبْلِهِ".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مغرب کی نماز پڑھتے، پھر ہم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ کر واپس ہوتا، اور وہ اپنے تیر گرنے کے مقام کو دیکھ لیتا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المواقیت 18 (559)، صحیح مسلم/المساجد 38 (637)، (تحفة الأشراف: 3572)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلا ة 6 (416)، سنن النسائی/المواقیت 13 (521)، مسند احمد (3/370، 4/141) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی سورج ڈوبتے ہی نماز پڑھ لیا کرتے تھے، بلاوجہ احتیاط کے نام پر تاخیر نہیں کرتے تھے، اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔

Abu Najashi said: "I heard Rafi' bin Khadij say: 'We used to perform the Maghrib at the time of the Messenger of Allah, and one of us would be able to see the places where his arrows would land when shot from his bow.'" (Sahih)Another chain with similar wording.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

   صحيح البخاري559رافع بن خديجنصلي المغرب مع النبي فينصرف أحدنا وإنه ليبصر مواقع نبله
   صحيح مسلم1441رافع بن خديجنصلي المغرب مع رسول الله فينصرف أحدنا وإنه ليبصر مواقع نبله
   سنن ابن ماجه687رافع بن خديجنصلي المغرب على عهد رسول الله فينصرف أحدنا وإنه لينظر إلى مواقع نبله
   بلوغ المرام131رافع بن خديجكنا نصلي المغرب مع رسول الله فينصرف احدنا وإنه ليبصر مواقع نبله
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 687 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث687  
اردو حاشہ:
(1)
تیر گرنے کی جگہ دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ نظر اتنی دور تک کام کرتی تھی کہ کوئی شخص تیر چلائے تو اندھیرا کم ہونے کی وجہ سے اسے اپنا تیر زمین میں گرتا ہوا نظر آئے۔

(2)
اتنی جلدی فارغ ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سورج غروب ہوتے ہی نماز مغرب ادا کی جاتی تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نماز مختصر ہوتی تھی اس میں دوسری نمازوں کی طرح طویل قراءت نہیں ہوتی تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 687   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 131  
´نماز مغرب میں زیادہ تاخیر جائز نہیں`
«. . . وعن رافع بن خديج رضي الله عنه قال: كنا نصلي المغرب مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فينصرف احدنا وإنه ليبصر مواقع نبله . . .»
. . . سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نماز مغرب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے پھر ہم میں سے کوئی نماز سے فارغ ہو کر واپس ہوتا (تو اتنی روشنی ابھی باقی ہوتی تھی) کہ تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 131]
لغوی تشریح:
«مَوَاقِعَ نَبْلِه» «مَوَاقِع»، موقع کی جمع ہے، مراد ہے تیروں کے گرنے کی جگہیں۔ اور «نَبْل» کے معنی ہیں: تیر۔ نون پر فتحہ اور با ساکن ہے۔ انہی لفظوں سے اس کا واحد استعمال نہیں ہوتا۔

فائدہ:
نماز مغرب میں زیادہ تاخیر جائز نہیں۔ اس کے ادا کرنے میں جلدی ہی بہتر ہے جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ) ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ کم عمری کی وجہ سے غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے۔ غزوہ احد اور بعد کے غزوات میں برابر شریک رہے۔ 73 یا 74 ہجری میں 86 برس کی عمر میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 131   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 559  
´مغرب کی نماز کے وقت کا بیان`
«. . . حَدَّثَنَا أَبُو النَّجَاشِيِّ صُهَيْبٌ مَوْلَى رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيج، يَقُولُ: " كُنَّا نُصَلِّي الْمَغْرِبَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْصَرِفُ أَحَدُنَا وَإِنَّهُ لَيُبْصِرُ مَوَاقِعَ نَبْلِهِ . . .»
. . . ابوالنجاشی نے بیان کیا، ان کا نام عطاء بن صہیب تھا اور یہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے غلام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رافع بن خدیج سے سنا` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم مغرب کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ کر جب واپس ہوتے اور تیر اندازی کرتے (تو اتنا اجالا باقی رہتا تھا کہ) ایک شخص اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھتا تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ وَقْتِ الْمَغْرِبِ:: 559]
تشریح:
حدیث سے ظاہر ہوا کہ مغرب کی نماز سورج ڈوبنے پر فوراً ادا کر لی جایا کرتی تھی۔ بعض احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ مغرب کی جماعت سے پہلے صحابہ دو رکعت سنت بھی پڑھا کرتے تھے، پھر فوراً جماعت کھڑی کی جاتی اور نماز سے فراغت کے بعد صحابہ کرام بعض دفعہ تیراندازی کی مشق بھی کیا کرتے تھے۔ اور اس وقت اتنا اجالا رہتا تھا کہ وہ اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھ سکتے تھے۔ مسلمانوں میں مغرب کی نماز اول وقت پڑھنا تو سنت متوارثہ ہے۔ مگر صحابہ کی دوسری سنت یعنی تیراندازی کو وہ اس طرح بھول گئے، گویا یہ کوئی کام ہی نہیں۔ حالانکہ تعلیمات اسلامی کی رو سے سپاہیانہ فنون کی تعلیمات بھی مذہبی مقام رکھتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 559   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 559  
559. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم نبی ﷺ کے ساتھ نماز مغرب پڑھتے تھے، پھر (فارغ ہونے کے بعد) جب ہم میں سے کوئی واپس جاتا (اور تیر پھینکتا) تو وہ تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:559]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
حدیث سے ظاہر ہوا کہ مغرب کی نماز سورج ڈوبنے پر فوراً ادا کرلی جایا کرتی تھی۔
بعض احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ مغرب کی جماعت سے پہلے صحابہ دورکعت سنت بھی پڑھا کرتے تھے، پھر فوراً جماعت کھڑی کی جاتی اور نماز سے فراغت کے بعد صحابہ کرام بعض دفعہ تیراندازی کی مشق بھی کیا کرتے تھے۔
اوراس وقت اتنا اجالا رہتا تھا کہ وہ اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھ سکتے تھے۔
مسلمانوں میں مغرب کی نماز اول وقت پڑھنا توسنت متوارثہ ہے۔
مگرصحابہ کی دوسری سنت یعنی تیراندازی کو وہ اس طرح بھول گئے، گویا یہ کوئی کام ہی نہیں۔
حالانکہ تعلیمات اسلامی کی روسے سپاہیانہ فنون کی تعلیمات بھی مذہبی مقام رکھتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 559   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:559  
559. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم نبی ﷺ کے ساتھ نماز مغرب پڑھتے تھے، پھر (فارغ ہونے کے بعد) جب ہم میں سے کوئی واپس جاتا (اور تیر پھینکتا) تو وہ تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:559]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ نماز مغرب کواول وقت میں ادا کرلینا چاہیے، یعنی ایسے وقت میں پڑھ لی جائے کہ فراغت کے بعد بھی روشنی باقی ہو، چنانچہ ایک حدیث میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا بیان بایں الفاظ نقل ہوا ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز مغرب ادا کرتے، پھر نکلتے اور تیراندازی کرتے تو ہم پر تیروں کے گرنے کی جگہ پوشیدہ نہ رہتی۔
(مسند أحمد: 36/4)
اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب کے بعد فاصلے طے کر کے بھی اتنی روشنی رہتی تھی کہ تیر گرنے کی جگہ نظر آتی۔
(فتح الباري: 55/2)
ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز مغرب پڑھتے۔
(سنن النسائي، المواقیت، حدیث: 521)
یعنی غروب آفتاب کے بعد نماز پڑھتے، پھر اتنی روشنی میں گھر پہنچ جاتے کہ تیر گرنے کی جگہ نظر آتی۔
حاصل کلام یہ ہے کہ نماز مغرب میں جلدی کرنا ایک پسندیدہ امر ہے۔
رسول اللہ ﷺ غروب آفتاب کے فوراً بعد نماز پڑھتے تھے۔
اسے اس قدر مؤخر نہ کیا جائے کہ آسمان پر ستارے نظر آنے لگیں اور نماز کا وقت نکل جائے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میری امت اس وقت تک فطرت پر قائم رہے گی جب تک نماز مغرب کو ستارے نکلنے تک مؤخر نہیں کرے گی۔
(صحیح ابن خزیمة: 174/1، حدیث: 339)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 559   

حدیث نمبر: 687M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو يحيى الزعفراني، حدثنا إبراهيم بن موسى، نحوه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.