ابوبردہ اپنے والد ابوموسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھ سے کہا: میرے بیٹے! کاش تم ہم کو اس وقت دیکھتے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب ہم پر آسمان سے بارش ہوتی تو تم خیال کرتے کہ ہماری بو بھیڑ کی بو جیسی ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ بالوں کے کپڑے جب بھیگ جاتے ہیں ان میں سے ایسی ہی بو پھوٹ نکلتی ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3562
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراد دیا ہے جبکہ دیگرمحققین نے اسے دیگرشواہد اور متابعات کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے اور انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 32/ 420، 421 وصحيح سنن ابن ماجة للألبانى، رقم: 2338 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم: 3562) اہل عرب اون کو اس طرح تیار کرنے کے فن سے واقف نہیں تھے جس طرح آج کل تیار کی جاتی ہے کہ اس سے نفیس اور ہموار تار تیار ہو جاتے ہیں بلکہ وہ سادہ انداز سے تیار کیا ہوا موٹا تار ہوتا تھا اور اس سے بننے والا کپڑا بھی موٹا اور کھردرا ہو تا تھا اس لئے سوتی کپڑا نفیس اور قیمتی جبکہ اونی لباس بھدا اور سستا ہوتا تھا۔
(3) صحابہ کرام نازو نعمت کی پروا نہیں کرتے تھے۔ وہ خود تو معمولی خوراک اور لباس پر اکتفا کرتے جبکہ اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرتے تھے۔
(4) جب عمدہ لباس کی طاقت نہ ہو تو اونی لباس پر صبر کرنا چاہیے اور اللہ سے شکوہ کرنے کی بجائے دین و ایمان کی حفاظت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3562