الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
The Chapters on Business Transactions
43. بَابُ : الْخَرَاجِ بِالضَّمَانِ
43. باب: غلام کی کمائی اس کے ضامن مالک سے جڑی ہوئی ہے۔
Chapter: A Slave’s Earning Belong To His Guarantor
حدیث نمبر: 2243
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا مسلم بن خالد الزنجي ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، ان رجلا اشترى عبدا فاستغله ثم وجد به عيبا فرده، فقال: يا رسول الله، إنه قد استغل غلامي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الخراج بالضمان".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَجُلًا اشْتَرَى عَبْدًا فَاسْتَغَلَّهُ ثُمَّ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا فَرَدَّهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَدِ اسْتَغَلَّ غُلَامِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک غلام خریدا، پھر اس سے مزدوری کرائی، بعد میں اسے اس میں کوئی عیب نظر آیا، اسے بیچنے والے کو واپس کر دیا، بیچنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرے غلام سے مزدوری کرائی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ فائدہ اسے ضمانت کی وجہ سے ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 73 (3510)، سنن الترمذی/البیوع 53 (1286 تعلیقاً)، (تحفة الأشراف: 17243)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/80، 116) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں مسلمہ بن خالد زنجی ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1315)

وضاحت:
۱؎: تو وہ اجرت خریدنے والے ہی کا حق ہے، اس لئے کہ وہ اس غلام کا ضامن تھا اگر وہ غلام اس کے پاس مر جاتا تو کیا اس کو قیمت واپس کر دیتا۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (3510)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 459

   جامع الترمذي1285عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   جامع الترمذي1286عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   سنن أبي داود3508عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   سنن أبي داود3509عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   سنن أبي داود3510عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   سنن ابن ماجه2243عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   سنن النسائى الصغرى4495عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   بلوغ المرام685عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   سنن النسائى الصغرى4495عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   جامع الترمذي1285عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   جامع الترمذي1286عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   سنن ابن ماجه2243عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   سنن أبي داود3508عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   سنن أبي داود3509عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
   سنن أبي داود3510عائشة بنت عبد اللهالخراج بالضمان
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2243 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2243  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر کوئی آمدنی دینے والی چیز خریدی جائے اور پھر واپس کر دی جائے تو جتنے دن وہ چیز خریدار کے پاس رہی ہے اور اس نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے واپسی کے وقت اس فائدے کا کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جائے گا۔
اس قانون سے صرف دودھ دینے والا جانور مستثنیٰ ہے جس کو واپس کرتے وقت ایک صاع کھجوریں ساتھ دی جائیں گی۔

(2)
اگر خریدار کے پاس جانور مر جائے یا کوئی دوسری چیز خراب ہو جائے یا تباہ ہو جائے تو یہ نقصان خریدار برداشت کرے گا، اس لیے اگر خریدار کو اس سے کوئی آمدنی ہوتی ہے تو وہ بھی خود رکھے گا، خریدی ہوئی چیز واپس کرتے وقت اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بیچنے والے کو واپس نہیں کرے گا۔

(3)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہی روایت سنن ابی داؤد (3510)
میں بھی ہے، وہاں ہمارے محقق نے اس کی بابت یوں لکھا ہے کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے البتہ سابقہ روایت (3509)
اس سے کفایت کرتی ہے لہٰذا مذکورہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی سنداً ضعیف ہونے باوجود معناً صحیح اور قابل عمل ہے، علاوہ ازیں مذکورہ روایت کو دیگر محققین نے حسن قرار دیا ہے۔
-دیکھیے: (صحيح سنن ابن ماجه للألباني، رقم: 1836، والموسوعة الحديثة مسندالإمام أحمد: 40/ 272، 273)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2243   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4495  
´نفع اسی کا ہے جو مال کا ضامن ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ «خراج» (نفع) مال کی ضمانت سے جڑا ہوا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4495]
اردو حاشہ:
مثلاً: کسی شخص نے کوئی جانور خریدا، چند دن کے بعد اس میں عیب یا دھوکے کا انکشاف ہوا تو بیع واپس ہو گئی مگر جتنے دن وہ جانور خریدار کے پاس رہا، اس سے حاصل ہونے والا دودھ وغیرہ اسی کا ہو گا کیونکہ ان دنوں اگر اس جانور کا نقصان ہو جاتا تو خریدار کے ذمے پڑتا۔ اسی طرح ان دنوں کے دوران میں خوراک وغیرہ بھی اسی کی ذمہ داری تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4495   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3508  
´ایک شخص نے غلام خریدا اور اسے کام پر لگایا پھر اس میں عیب کا پتہ چلا تو اس کی اجرت خریدار کے ذمہ ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خراج ضمان سے جڑا ہوا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3508]
فوائد ومسائل:
توضیح۔
غلام نے جو کچھ کمایا وہ خریدار کا ہے۔
اس مدت میں اگر اس کے کسی عیب پر مطلع ہوا اور اسے واپس کیا تو صرف غلام واپس ہوگا۔
اس کی کمائی نہیں۔
کیونکہ بالفرض اگران دنوں میں غلام مرجاتا۔
تو یہ نقصان خریدار کا ہی ہوتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3508   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3509  
´ایک شخص نے غلام خریدا اور اسے کام پر لگایا پھر اس میں عیب کا پتہ چلا تو اس کی اجرت خریدار کے ذمہ ہے۔`
(مخلد بن خفاف) غفاری کہتے ہیں میرے اور چند لوگوں کے درمیان ایک غلام مشترک تھا، میں نے اس غلام سے کچھ کام لینا شروع کیا اور ہمارا ایک حصہ دار موجود نہیں تھا اس غلام نے کچھ غلہ کما کر ہمیں دیا تو میرا شریک جو غائب تھا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور معاملہ ایک قاضی کے پاس لے گیا، اس قاضی نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے حصہ کا غلہ اسے دے دوں، پھر میں عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے اسے بیان کیا، تو عروہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور ان سے وہ حدیث بیان کی جو انہوں نے ام المؤمنین ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3509]
فوائد ومسائل:
توضیح۔
اس صورت میں غالبا ً مخلد نے اپنے شریک سے اتفاق کئے بغیر کام کروایا۔
اس لئے غلام ان کی ضمان میں ہوگیا۔
اگر شریک سے اتفاق کیا گیا ہوتا تو پھر وہ بھی اس کی آمدنی میں حصہ دار ہوتا۔
(از ترجمہ۔
علامہ وحید الزمان)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3509   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.