حدثنا عبد الله بن هاشم، قال: ثنا يحيى يعني ابن سعيد، عن شعبة، قال: حدثني عمرو بن مرة، عن عبد الله بن سلمة، قال: اتيت عليا رضي الله عنه انا ورجلان من قومي ورجل من بني اسد احسب فبعثهما وجها فقال: إنكما علجان فعالجا عن دينكما، ثم دخل المخرج فتهيا ثم خرج فاخذ جفنة من ماء فتمسح بها ثم جعل يقرا فكانما انكرنا عليه فقال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يقضي حاجته ثم يخرج فيقرا القرآن وناكل معه اللحم ولا يحجزه» ، وربما قال: «ولا يحجبه عن ذلك شيء ليس الجنابة» قال يحيى: وكان شعبة يقول في هذا الحديث: نعرف وننكر يعني ان عبد الله بن سلمة كان كبر حيث ادركه عمرو.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ، قَالَ: ثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ قَوْمِي وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ أَحْسَبُ فَبَعَثَهُمَا وَجْهًا فَقَالَ: إِنَّكُمَا عِلْجَانِ فَعَالِجَا عَنْ دِينِكُمَا، ثُمَّ دَخَلَ الْمَخْرَجَ فَتَهَيَّأَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَخَذَ جَفْنَةً مِنْ مَاءٍ فَتَمَسَّحَ بِهَا ثُمَّ جَعَلَ يَقْرَأُ فَكَأَنَّمَا أَنْكَرْنَا عَلَيْهِ فَقَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي حَاجَتَهُ ثُمَّ يَخْرُجُ فَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنَأْكُلُ مَعَهُ اللَّحْمَ وَلَا يَحْجِزُهُ» ، وَرُبَّمَا قَالَ: «وَلَا يَحْجُبُهُ عَنْ ذَلِكَ شَيْءٌ لَيْسَ الْجَنَابَةُ» قَالَ يَحْيَى: وَكَانَ شُعْبَةُ يَقُولُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: نَعْرِفُ وَنُنْكِرُ يَعْنِي أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَمَةَ كَانَ كَبِرَ حَيْثُ أَدْرَكَهُ عَمْرٌو.
عبد اللہ بن سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے قبیلے کے دو آدمی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، میرا خیال ہے ایک آدمی بنو اسد میں سے بھی تھا، آپ نے ان دونوں کو یہ کہہ کر شہر کی دوسری جانب بھیج دیا کہ آپ ضخیم و جسیم ہیں، اس لیے وہاں جا کر دین کی خدمت کریں۔ آپ بیت الخلا میں چلے گئے، پھر واپس آکر پانی منگوایا، اس سے ایک چلو لے کر ہاتھ دھوئے اور قرآن کی تلاوت شروع کر دی، ہم نے عجیب سا محسوس کیا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے بتایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کر کے بیت الخلا سے نکلتے، تو قرآن پڑھتے، ہمارے ساتھ گوشت کھاتے، جنابت کے علاوہ کوئی چیز آپ کو ان کاموں سے نہیں روکتی تھی۔ یحیٰی کہتے ہیں: امام شعبہ رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق کہا کرتے تھے: یہ ہمارے نزدیک معروف بھی ہے اور منکر بھی، کیوں کہ جب عمرو کی ملاقات عبداللہ بن سلمہ سے ہوئی، تو اس وقت وہ (عبداللہ) بوڑھے ہو چکے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن: مسند الإمام أحمد: 84/1-124، سنن أبي داود: 229، سنن النسائي: 266، سنن ابن ماجه: 594، اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ 146 نے ”حسن صحیح“، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ 208، امام ابن حبان رحمہ اللہ 799 اور امام حاکم رحمہ اللہ 107/4 نے ”صحیح“ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: صَحْحَهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ السَّكَنِ وَعَبْدُ الْحَقِّ وَالْبَغَوِيُّ [التلخيص الحبير: 139/1] نیز فرماتے ہیں: وَالْحَقُّ أَنَّهُ مِنْ قَبِيلِ الْحَسَنِ يَصْلُحُ لِلْحُجَّةِ [فتح الباري: شرح صحيح البخاري: 408/1، ح: 305]، امیر المومنین فی الحدیث، امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: هَذَا خُلتُ رَأْسِ مَالِي. [صحيح ابن خزيمة: 104/1، ح: 208، و سنده صحيح]، امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قَالَ لِي شُعْبَةُ: مَا أُحَدِّثُ بِحَدِيثٍ أَحْسَنَ مِنهُ [سنن الدارقطني: 119/1، وسنده صحيح]، حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ [البدر المنير: 651/2] نے اسے ”جید“ قرار دیا ہے۔»