حدثنا محمد بن يحيى، قال: قرات على عبد الله بن نافع: وحدثني مطرف بن عبد الله، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن حميدة بنت عبيد بن رفاعة، عن كبشة بنت كعب بن مالك وكانت تحت ابن ابي قتادة ان ابا قتادة، رضي الله عنه دخل عليها فسكبت له وضوءا فجاءت هرة تشرب منه فاصغى لها الإناء حتى شربت قالت كبشة: فرآني انظر إليه فقال: اتعجبين يا ابنة اخي؟ قالت: فقلت: نعم فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إنها ليست بنجس إنها من الطوافين عليكم او الطوافات» .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ: وَحَدَّثَنِي مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ حُمَيْدَةَ بِنْتِ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ كَبْشَةَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَتْ تَحْتَ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دَخَلَ عَلَيْهَا فَسَكَبَتْ لَهُ وُضُوءًا فَجَاءَتْ هِرَّةٌ تَشْرَبُ مِنْهُ فَأَصْغَى لَهَا الْإِنَاءَ حَتَّى شَرِبَتْ قَالَتْ كَبْشَةُ: فَرَآنِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ فَقَالَ: أَتَعْجَبِينَ يَا ابْنَةَ أَخِي؟ قَالَتْ: فَقُلْتُ: نَعَمْ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجِسٍ إِنَّهَا مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ أَوْ الطَّوَّافَاتِ» .
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی بہو، کبشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے، تو انہوں نے انہیں وضو کے لیے پانی ڈال کر دیا۔ بلی آئی اور پینے لگی۔ انہوں نے اس کی طرف برتن جھکا دیا حتی کہ اس نے سیر ہو کر پی لیا، کبشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ نے مجھے دیکھ کر کہ میں انہیں دیکھ رہی ہوں فرمایا: اے بھتیجی! کیا آپ تعجب کر رہی ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں! فرمایا: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: یہ (بلی) پلید نہیں ہے، کیوں کہ یہ تم پر گھومنے پھرنے والے مرد یا عورتوں میں سے ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح: موطأ الإمام مالك: 23,22/1، مسند الإمام أحمد: 303/5-309، سنن أبي داود: 75، سنن النسائي: 68، سنن الترمذي: 92، سنن ابن ماجه: 367، اس حديث كو امام ترمذي رحمہ اللہ نے ”حسن صحيح“، امام ابن خزيمه رحمہ اللہ 104، امام ابن حبان رحمہ اللہ 1299 اور امام حاكم رحمہ اللہ 160/1 نے ”صحيح“ كہا ہے، حافظ ذہبي رحمہ اللہ نے ان كي موافقت كي ہے. امام عقيلی رحمہ اللہ فرماتے ہيں: هذا اسناد ثابت صحيح: [الضعفاء الكبير: 141/2]، حافظ نووي رحمہ اللہ [الجموع: 1/ 118] اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ [المطالب العالية: 111/2] نے ”صحيح“ كہا ہے. امام دارقطني رحمہ اللہ فرماتے هيں: احسنها إسنادا ما رواه مالك.... [العلل: 163/6]»