اس سند سے بھی رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فرمایا)، پھر انہوں نے یہی حدیث بیان کی اس میں ہے: ”پھر وضو کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے، پھر تشہد پڑھو ۱؎، پھر اقامت کہو، پھر «الله اكبر» کہو، پھر اگر تمہیں کچھ قرآن یاد ہو تو اسے پڑھو، ورنہ «الحمد لله، الله أكبر، لا إله إلا الله» کہو“، اور اس میں ہے کہ: ”اگر تم نے اس میں سے کچھ کم کیا تو اپنی نماز میں سے کم کیا“۔
Rifaah bin Rafi has also narrated this tradition through a different chain from the Messenger of Allah ﷺ. This version goes: Then perform ablution in a way Allah, the exalted, has command you, then say the shahadah and get up and say the takbir. Then if you know any of the Quran, recite it; otherwise say: “Praise be to Allah”; “Allah is most great”; “ There is no god but Allah” He ( the narrator) also said in this version: If some defect remains in this, that detect will remain in your prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 860
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح أخرجه النسائي (668 وسنده صحيح) وصححه ابن خزيمة (545 وسنده صحيح)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 861
861۔ اردو حاشیہ: ➊ مذکورہ بالا چھ روایات «حديث مسئي الصّلاة» کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔ (یعنی وہ آدمی جس نے غلط انداز میں نماز پڑھی تھی) اس کا نام خلاد بن رافع رضی اللہ عنہ ہے۔ ➋ علم نہ ہونے کے عذر سے انسان کے افعال عبادت کسی طور بھی صحیح اور جائز نہیں ہو سکتے، اس لیے ضروری ہے کہ ہر مسلمان اپنے دین کا ضروری علم حاصل کرنے کا اہتمام کرے اور یہ فرض ہے۔ ➌ تعلیم و تربیت کی غرض سے طلبہ میں طلب علم، اور اصلاح اغلاط کا داعیہ اجاگر کرنے کے لیے مربی کو مختلف انداز اختیار کرنے چاہیں۔ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے دو تین بار نماز پڑھوائی۔ ➍ اس حدیث میں نماز کے بہت سے مسائل آ گئے ہیں۔ ان کے متعلق ائمہ حدیث یہ کہتے ہیں کہ شاید وہ ان سے واقف تھا۔ ➎ وضو کی باترتیب تکمیل، اس کے بعد دعا، منفرد کے لیے اقامت، ابتدائے نماز کے لیے لفظ اللہ اکبر کی تخصیص، ثناء اور فاتحہ، قرأت قرآن، تکبیرات انتقال اور تسمیع، رکوع سجود میں کمر کو سیدھا رکھنا، بیٹھے ہوئے اقعاء کی بجائے پاؤں بچھا کر بیٹھنا اور اطمینان و اعتدال ارکان ایسے مسائل ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے اسے تعلیم فرمائے ہیں۔ فقہائے کرام نے ان مسائل میں فرض، واجب، سنت اور مستحب کی اصطلاحات استعال کی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس طرح ان کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ حالانکہ فرمان رسول کے سامنے سوائے تسلیم و تعمیل کے اور کسی بحث کا سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ ➏ اس حدیث کے پس منظر میں سب سے اہم مسئلہ اعتدال و اطمینان کے وجوب کا ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ خواہ مسجد نبوی میں کیوں نہ پڑھی جائے۔ ائمہ احناف میں سے امام طحاوی رحمہ اللہ نے بھی وجوب اطمینان کی صراحت کی ہے۔ ➐ کچھ لوگوں نے «ثم اقرا بما تيسر معك من القرآن» سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرأت فاتحہ واجب نہیں ہے مگر یہ استدلال ازحد ضعیف ہے، کیونکہ اس حدیث کی ایک سند (حدیث: 859) میں «ثمَّ اقرَأْ بأُمِّ القُرآنِ وبما شاء اللهُ أنْ تَقرَأَ» کی صراحت موجود ہے۔ یعنی فاتحہ کی قرأت کرو اور جو الله توفیق دے۔ ان لوگوں کا استدلال ضعیف ہونے کی ایک نظیر یہ ہے کہ قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے حج کے مسائل میں فرمایا ہے: «فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ»[2-البقرة:196] اور جو کوئی عمرہ کو حج کے ساتھ ملانے کا فائدہ اٹھائے تو اس پر قربانی ہے جو اسے میسر آئے اور ظاہر ہے کہ حج تمتع میں کم از کم قربانی ایک بکری ہے اور شرط ہے کہ اس کے دانت ٹوٹ کر پھر سے نکل چکے ہوں۔ جیسے کہ صحیح احادیث سے واضح ہے۔ ”میسر آنے“ کا مفہوم کسی صورت بھی کھلی چھوٹ نہیں، بلکہ خاص صفت سے مخصوص ہے۔ ایسے ہی «ثم اقرا بما تيسر معك من القرآن» کی توضیح سورت فاتحہ ہے جیسے کہ حدیث:859 اور دیگر صحیح و صریح احادیث میں آیا ہے۔ الا یہ کہ کوئی ازحد عاجز ہو اور کچھ بھی نہ پڑھ سکتا ہو تو تسبیح و تہلیل کر سکتا ہے۔ ➑ «ثم افضل ذلك فى صلاتك كلها» کے الفاظ کی روشنی میں مذکورہ آداب و تعلیمات کو ہر ہر رکعت میں ملحوظ خاطر رکھنا لازم ہے۔ اور اسی میں سے اطمینان اور قراءت فاتحہ بھی ہے، اور الله توفیق دینے والا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 861