(مرفوع) حدثنا مؤمل بن هشام، حدثنا إسماعيل، عن الجريري، عن ابي نضرة، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، وليس بتمامه، قال: ذهبوا يسبونه فنهاهم، قال: ذهبوا يستغفرون له فنهاهم، قال: هو رجل اصاب ذنبا حسيبه الله. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَلَيْسَ بِتَمَامِهِ، قَالَ: ذَهَبُوا يَسُبُّونَهُ فَنَهَاهُمْ، قَالَ: ذَهَبُوا يَسْتَغْفِرُونَ لَهُ فَنَهَاهُمْ، قَالَ: هُوَ رَجُلٌ أَصَابَ ذَنْبًا حَسِيبُهُ اللَّهُ.
ابونضرہ سے روایت ہے ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آگے اسی جیسی روایت ہے، اور پوری نہیں ہے اس میں ہے: لوگ اسے برا بھلا کہنے لگے، تو آپ نے انہیں منع فرمایا، پھر لوگ اس کی مغفرت کی دعا کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا، اور فرمایا: ”وہ ایک شخص تھا جس نے گناہ کیا، اب اللہ اس سے سمجھ لے گا (چاہے گا تو معاف کر دے ورنہ اسے سزا دے گا تم کیوں دخل دیتے ہو)“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 4331) (ضعیف)» (ابو نضرة منذر بن مالک بن قطعة تابعی ہیں، اور انہوں نے واسطہ ذکر نہیں کیا ہے، اس لئے حدیث مرسل وضعیف ہے)
Abu Nadrah said: A man came to Prophet ﷺ. He then mentioned a similar tradition but not completely. This version has: People began to speak ill of him but he (the Prophet) forbade them. Then they began to ask forgiveness from him, but he forbade them by saying. He is a man who had committed a sin. Allah will call him to account himself.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4418
قال الشيخ الألباني: ضعيف مرسل
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف السند مرسل أبو نضرة المنذر بن مالك من التابعين انوار الصحيفه، صفحه نمبر 156
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4432
فوائد ومسائل: فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے، صحیح بات یہ ہے کہ کسی مسلمان نے خواہ کس فدر گناہ کیا ہو، اس کے لئے استغفار جائز ہے۔ حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کے لیے بھی بعد میں نماز جنازہ پڑھی گئی تھی، جیسا کہ صحیح بخاری مبں صراحت ہے دیکھئیے: (صحیح البخاریي، الحدود، حدیث: 6820)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4432