الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: قربانی کے مسائل
Sacrifice (Kitab Al-Dahaya)
6. باب مَا يُكْرَهُ مِنَ الضَّحَايَا
6. باب: قربانی میں کون سا جانور مکروہ ہے۔
Chapter: What Is Disliked For Udhiyyah.
حدیث نمبر: 2804
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا زهير، حدثنا ابو إسحاق، عن شريح بن النعمان، وكان رجل صدق عن علي، قال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نستشرف العين والاذنين، ولا نضحي بعوراء ولا مقابلة ولا مدابرة ولا خرقاء ولا شرقاء، قال زهير: فقلت لابي إسحاق: اذكر عضباء، قال، لا قلت: فما المقابلة؟ قال: يقطع طرف الاذن، قلت: فما المدابرة؟ قال: يقطع من مؤخر الاذن، قلت: فما الشرقاء؟ قال: تشق الاذن، قلت: فما الخرقاء؟ قال: تخرق اذنها للسمة.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ، وَكَانَ رَجُلَ صِدْقٍ عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالأُذُنَيْنِ، وَلَا نُضَحِّي بِعَوْرَاءَ وَلَا مُقَابَلَةٍ وَلَا مُدَابَرَةٍ وَلَا خَرْقَاءَ وَلَا شَرْقَاءَ، قَالَ زُهَيْرٌ: فَقُلْتُ لِأَبِي إِسْحَاق: أَذَكَرَ عَضْبَاءَ، قَالَ، لَا قُلْتُ: فَمَا الْمُقَابَلَةُ؟ قَال: يُقْطَعُ طَرَفُ الأُذُنِ، قُلْتُ: فَمَا الْمُدَابَرَةُ؟ قَالَ: يُقْطَعُ مِنْ مُؤَخَّرِ الأُذُنِ، قُلْتُ: فَمَا الشَّرْقَاءُ؟ قَالَ: تُشَقُّ الأُذُنُ، قُلْتُ: فَمَا الْخَرْقَاءُ؟ قَالَ: تُخْرَقُ أُذُنُهَا لِلسِّمَةِ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور کی آنکھ اور کان خوب دیکھ لیں (کہ اس میں ایسا نقص نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو) اور کانے جانور کی قربانی نہ کریں، اور نہ «مقابلة» کی، نہ «مدابرة» کی، نہ «خرقاء» کی اور نہ «شرقاء» کی۔ زہیر کہتے ہیں: میں نے ابواسحاق سے پوچھا: کیا «عضباء» کا بھی ذکر کیا؟ تو انہوں نے کہا: نہیں ( «عضباء» اس بکری کو کہتے ہیں جس کے کان کٹے ہوں اور سینگ ٹوٹے ہوں)۔ میں نے پوچھا «مقابلة» کے کیا معنی ہیں؟ کہا: جس کا کان اگلی طرف سے کٹا ہو، پھر میں نے کہا: «مدابرة» کے کیا معنی ہیں؟ کہا: جس کے کان پچھلی طرف سے کٹے ہوں، میں نے کہا: «خرقاء» کیا ہے؟ کہا: جس کے کان پھٹے ہوں (گولائی میں) میں نے کہا: «شرقاء» کیا ہے؟ کہا: جس بکری کے کان لمبائی میں چرے ہوئے ہوں (نشان کے لیے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأضاحي 6 (1498)، سنن النسائی/الضحایا 8 (4377) 8 (4378)، 9 (4379)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 8 (3142)، (تحفة الأشراف: 10125)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/80، 108، 128، 149)، سنن الدارمی/الأضاحي 3 (1995) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابواسحاق مختلط اور مدلس ہیں، نیز شریح سے ان کا سماع نہیں، اس لیے سند میں انقطاع بھی ہے، مگر مطلق کان، ناک دیکھ بھال کر لینے کا حکم صحیح ہے)

Narrated Ali ibn Abu Talib: The Messenger of Allah ﷺ enjoined upon us to pay great attention to the eye and both ears, and not to sacrifice a one-eyed animal, and an animal with a slit which leaves something hanging at the front or back of the ear, or with a lengthwise slit with a perforation in the ear. I asked Abu Ishaq: Did he mention an animal with broken horns and uprooted ears? He said: No. I said: 'What is the Muqabalah ?' He replied: 'It has been cut from the back of its ear. ' I said: 'What about the Sharqa'? He replied: 'The ear has been split. ' I said: 'What about the Kharqa'? He replied: 'A hole is made (in its ears) as a distinguishing mark. '"
USC-MSA web (English) Reference: Book 15 , Number 2798


قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا جملة الأمر بالاستشراف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (1498) نسائي (4377 تا 4380) ابن ماجه (3142)
أبو إسحاق عنعن وصرح بالسماع من ابن أشوع عن شريح في رواية ضعيفة عند الحاكم (224/4)
ولبعض الحديث شاھد حسن عند الترمذي (1503)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 101

   جامع الترمذي1503علي بن أبي طالبنستشرف العينين والأذنين
   جامع الترمذي1498علي بن أبي طالبنستشرف العين والأذن لا نضحي بمقابلة ولا مدابرة ولا شرقاء ولا خرقاء
   سنن أبي داود2804علي بن أبي طالبنستشرف العين والأذنين لا نضحي بعوراء ولا مقابلة و
   سنن ابن ماجه3143علي بن أبي طالبنستشرف العين والأذن
   سنن النسائى الصغرى4377علي بن أبي طالبنستشرف العين والأذن لا نضحي بمقابلة ولا مدابرة ولا بتراء ولا خرقاء
   سنن النسائى الصغرى4378علي بن أبي طالبنستشرف العين والأذن لا نضحي بعوراء ولا مقابلة ولا مدابرة ولا شرقاء ولا خرقاء
   سنن النسائى الصغرى4381علي بن أبي طالبنستشرف العين والأذن
   بلوغ المرام1165علي بن أبي طالبنستشرف العين والاذن ولا نضحي بعوراء ولا مقابلة ولا مدابرة ولا خرقاء ولا ثرماء
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2804 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2804  
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے واضح ہے کہ قربانی کے جانور کے کان اور آنکھ وغیرہ کوبغور دیکھ لینا چاہیے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2804   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1165  
´(احکام) قربانی کا بیان`
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم قربانی والے جانور کی آنکھ، کان اچھی طرح دیکھ لیں۔ جو جانور یک چشم ہو یا اس کے کان کا سامنے والا یا پیچھے والا حصہ کٹ کر لٹک گیا ہو یا کان درمیان سے کٹا ہوا ہو یا دانت گر پڑے ہوں تو ایسے جانور ہم قربان نہ کریں۔ اسے احمد اور چاروں نے نکالا ہے ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1165»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الضحايا، باب ما يكره من الضحايا، حديث:2804، والترمذي، الأضاحي، حديث:1498، والنسائي، الضحايا، حديث:4379، وابن ماجه، الأضاحي، حديث:3142، وأحمد:1 /95،101، 108، وابن حبان (الإحسان):7 /566، 5890، والحاكم:4 /224.»
تشریح:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ سنن ابی داود اور سنن ابن ماجہ میں اسی روایت کو حسن قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فاضل محقق کو یہاں سہو ہو گیا ہے۔
علاوہ ازیں دیگر محققین نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔
دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ /۱۳۶‘ و ۲۱۱)
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔ واللّٰه أعلم
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1165   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4377  
´سامنے سے کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی منع ہے۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم (جانوروں کے) آنکھ اور کان دیکھ لیں اور کسی ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان سامنے سے کٹا ہو، یا جس کا کان پیچھے سے کٹا ہو، اور نہ دم کٹے جانور کی، اور نہ ایسے جانور کی جس کے کان میں سوراخ ہوں۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4377]
اردو حاشہ:
جانور کی خوبصورتی اس کے کان آنکھ ہی سے ہوتی ہے، اس لیے آپ نے ان میں ہلکا سا عیب بھی قبول نہیں فرمایا، خصوصاً اس لیے بھی کہ مشرکین بتوں کے نام پر جانوروں کے کان کچھ حد تک کاٹ دیتے تھے۔ چونکہ کن کٹنے جانور کے بارے میں یہ شبہ قائم ہے کہ شاید وہ کسی بت کے لیے نامزد ہو، لہٰذا اس قسم کے ہر جانور کو قربانی میں ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ دم بھی جانور کی خوبصورت میں اصل ہے، لہٰذا دم کٹا جانور بھی ممنوع ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4377   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4381  
´پھٹے کان والے جانور کی قربانی منع ہے۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آنکھ اور کان دیکھ لینے کا حکم دیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4381]
اردو حاشہ:
غور سے دیکھیں بعض حضرات نے معنیٰ کیے ہیں کہ ہم بہترین کانوں اور آنکھوں والا پسند کریں۔ مفہوم اس کا بھی یہی ہے کہ آنکھوں اور کانوں میں کسی قسم کا، معمولی سا بھی کوئی عیب گوارا نہیں۔ مزید برآں یہ بھی کہ آنکھ اور کان وہی خوبصورت اور بہترین ہوں گے جو نقص اور عیب سے پاک ہوں، عیب والی آنکھ کان تو بہترین نہیں ہوسکتے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4381   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3143  
´کن جانوروں کی قربانی مکروہ ہے؟`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی کے جانور) کی آنکھ اور کان غور سے دیکھ لیں (آیا وہ سلامت ہیں یا نہیں)۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3143]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور کے کان سلامت ہونے چاہییں۔

(2)
آنکھیں دیکھ لینے کا مقصد یہ ہے کہ جانور کی دونوں آنکھیں سلامت ہوں۔
جس کو ایک آنکھ سے نظر نہ آتا ہو اس کی قربانی درست نہیں۔

(3)
قربانی کا اصل مقصد اللہ کے لیے اچھی چیز قربان کرنا ہےاس لیے بے عیب جانور ذبح کرنا چاہیے۔
گوشت کھانا ایک اضافی فائدہ ہےاصل مقصد نہیں۔
ورنہ آنکھ یا کان کا عیب گوشت کھانے کے مقصد میں رکاوٹ نہیں بنتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3143   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1498  
´جن جانوروں کی قربانی مکروہ ہے۔`
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی والے جانور کی) آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں، اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان آگے سے کٹا ہو، یا جس کا کان پیچھے سے کٹا ہو، یا جس کا کان چیرا ہوا ہو (یعنی لمبائی میں کٹا ہوا ہو)، یا جس کے کان میں سوراخ ہو۔ اس سند سے بھی علی رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں یہ اضافہ ہے کہ «مقابلة» وہ جانور ہے جس کے کان کا کنارہ (آگے سے) کٹا ہو، «مدابرة» وہ جانور ہے جس کے کان کا کنارہ (پیچھے سے) کٹا ہو، «شرقاء» جس کا کان (لمبائی میں) چیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1498]
اردو حاشہ:
وضاحت:
نوٹ:
(سند میں ابواسحاق سبیعی مختلط اورمدلس ہیں،
نیز شریح سے ان کا سماع نہیں،
اس لیے سند میں انقطاع بھی ہے،
مگر ناک کان دیکھ لینے کا مطلق حکم ثابت ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1498   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1503  
´ٹوٹی سینگ اور پھٹے کان والے جانوروں کی قربانی کا بیان۔`
حجیہ بن عدی سے روایت ہے کہ علی رضی الله عنہ نے کہا: گائے کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے کی جائے گی، حجیہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا: اگر وہ بچہ جنے؟ انہوں نے کہا: اسی کے ساتھ اس کو بھی ذبح کر دو ۱؎، میں نے کہا اگر وہ لنگڑی ہو؟ انہوں نے کہا: جب قربان گاہ تک پہنچ جائے تو اسے ذبح کر دو، میں نے کہا: اگر اس کے سینگ ٹوٹے ہوں؟ انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں ۲؎، ہمیں حکم دیا گیا ہے، یا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ ہم ان کی آنکھوں اور کانوں کو خوب دیکھ بھال لیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1503]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی قربانی کے لیے گائے خریدی پھر اس نے بچہ جنا تو بچہ کو گائے کے ساتھ ذبح کردے۔

2؎:
ظاہری مفہوم سے معلوم ہواکہ ایسے جانور کی قربانی علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک جائز ہے،
لیکن آگے آنے والی علی رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت ان کے اس قول کے مخالف ہے۔
(لیکن وہ ضعیف ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1503   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.