الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
Fasting (Kitab Al-Siyam)
59. باب فِي صَوْمِ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ
59. باب: شوال کے چھ روزوں کا بیان۔
Chapter: Regarding Fasting Six Days In Shawwal.
حدیث نمبر: 2433
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا النفيلي، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن صفوان بن سليم، وسعد بن سعيد، عن عمر بن ثابت الانصاري، عن ابي ايوب صاحب النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من صام رمضان ثم اتبعه بست من شوال فكانما صام الدهر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، وَسَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ بِسِتٍّ مِنْ شَوَّالٍ فَكَأَنَّمَا صَامَ الدَّهْرَ".
ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ روزے شوال کے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصیام 29 (1164)، سنن الترمذی/الصوم 53 (759)، سنن ابن ماجہ/الصیام 33 (1716)، (تحفة الأشراف: 3482)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/417، 419)، سنن الدارمی/الصوم 44 (1795) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Ayyub: The Prophet ﷺ as saying: If anyone fasts during Ramadan, then follows it with six days in Shawwal, it will be like a perpetual fast.
USC-MSA web (English) Reference: Book 13 , Number 2427


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1164)

   صحيح مسلم2758خالد بن زيدمن صام رمضان وأتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر
   جامع الترمذي759خالد بن زيدمن صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال فذلك صيام الدهر
   سنن أبي داود2433خالد بن زيدمن صام رمضان ثم أتبعه بست من شوال فكأنما صام الدهر
   سنن ابن ماجه1716خالد بن زيدمن صام رمضان ثم أتبعه بست من شوال كان كصوم الدهر
   المعجم الصغير للطبراني822خالد بن زيدمن صام رمضان وستا من شوال فقد صام الدهر
   بلوغ المرام553خالد بن زيدمن صام رمضان ثم اتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر
   مسندالحميدي384خالد بن زيدمن صام رمضان وأتبعه ستا من شوال فكأنما صام الدهر
   مسندالحميدي385خالد بن زيدمن صام رمضان وأتبعه ستا من شوال فكأنما صام الدهر
   مسندالحميدي386خالد بن زيد
   مسندالحميدي388خالد بن زيدمن ستر مؤمنا في الدنيا على خزيه ستره الله يوم القيامة
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2433 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2433  
فوائد ومسائل:
(1) اس حدیث میں شش عیدی روزوں کی فضیلت و استحباب کا بیان ہے۔
اور جائز ہے کہ یہ عید کے بعد فورا مسلسل رکھ لیے جائیں یا اس مہینے میں متفق طور پر رکھے جائیں۔

(2) زمانہ بھر یعنی سال بھر کے روزون کا ثواب اس طرح واضح کیا جاتا ہے کہ حسب قاعدہ (مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ‌ أَمْثَالِهَا) (الانعام:160) رمضان کے تیس اور شوال کے چھ دن کل چھتیس دن ہوئے اور دس گنا ثواب سے تین سو ساٹھ ہو گئے اور تقریبا یہی تعداد سال کے دنوں کی ہوتی ہے۔
واللہ اعلم.
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2433   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1716  
´ماہ شوال کے چھ روزوں کا بیان۔`
ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کا روزہ رکھا، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے، تو وہ پورے سال روزے رکھنے کے برابر ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1716]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ مسلمانو ں پر اللہ کا خاص احسان ہے کہ اس کی رضا کے لئے جو عمل کیا جائے اس کا ثواب بہت زیادہ دیتا ہے اس رحمت الہی سے فا ئدہ اٹھانے کے لئے فرضی عبادت کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات بھی ادا کرتے رہنا چاہیے-
(2)
اکثر علماء کا خیال ہے کہ یہ روزے عید کے دوسرے دن سے شروع کرنا ضروری نہیں اور مسلسل رکھنا بھی ضروری نہیں تا ہم ساتھ ہی رکھ لینے میں آسانی ہے
(3)
بعض جگہ عوام میں مشہور ہے کہ عید کے بعد چھ روزے رکھ کر شوال کی آ ٹھ تاریخ کو بھی عید ہوتی ہے بعض لوگ اس دن کچھ اہتمام بھی کرتے ہیں یہ خیال بے اصل ہے لہٰذا اس سے اجتناب کر نا چاہیے
(4)
زمانے بھر یعنی سال بھر کے روزو ں کا ثواب اس طرح واضح کیا جا تا ہے کہ حسب قا عدہ ﴿مَن جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ﴾  (الأنعام: 160، 6)
 رمضان کے تیس شوال کے چھ دن کل چھتیس دن ہو ئے اور دس گناہ ثواب سے تین سو ساٹھ ہو گئے اور تقریبا یہی تعداد سا ل کے دنوں کی ہو تی ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1716   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 759  
´شوال کے چھ دن کے روزوں کا بیان۔`
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 759]
اردو حاشہ:
1؎:
ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے کے اصول کے مطابق رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے اگر رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوں گے،
اس طرح اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا،
جس کا یہ مستقل معمول ہو جائے اس کا شمار اللہ کے نزدیک ہمیشہ روزے رکھنے والوں میں ہو گا،
شوّال کے یہ روزے نفلی ہیں انہیں متواتر بھی رکھا جا سکتا ہے اور ناغہ کر کے بھی،
تاہم شوّال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 759   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:386  
386- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:386]
فائدہ:
اس حدیث میں شوال کے چھ روزوں کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، بعض کا ان روزوں کو مکر وہ سمجھنا باطل ہے، امام مالک کو شوال کے روزوں کی مشروعیت پر دلالت کر نے والی احادیث نہیں پہنچی تھیں، اگر انھیں احادیث پہنچیں تو وہ بھی اس کی مشروعیت کا فتوی دیتے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 386   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:388  
388- عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ، سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ وہ اس وقت مصر میں تھے۔ انہوں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا، جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی تھی اور اب کوئی بھی ایسا شخص باقی نہیں رہا تھا جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وہ حدیث سنی ہو۔ صرف سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث سنی ہوئی تھی۔ جب سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ مصر آئے تو مسلمہ بن مخلد انصاری کے گھر ٹھہرے، جو مصر کا امیر تھا۔ اسے اس بارے میں بتایا گیا، تو وہ تیزی سے نکل کر ان کے پاس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:388]
فائدہ:
اس سے ثابت ہوا کہ سفر سے آئے ہوئے مہمان کے ساتھ معانقہ کرنا چاہئے، اور مہمان کا ہر لحاظ سے احترام و اکرام کرنا چاہیے، نیز اس حدیث سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حدیث کی خاطر محنت و جستجو کی انتھک محنت کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی طرح محدثین نے بھی ایک ایک حدیث کی خاطر کئی کئی ہزارمیلوں کا سفر طے کیا، راقم نے محدثین کے اس طرح کے واقعات اپنی قیمتی کتاب نصیحتیں میرے اسلاف کی میں درج کیے ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 388   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2758  
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کی مثل (برابر) ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2758]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے عید الفطر کے بعد یہ چھ روزے پے در پے اور متصل رکھے جائیں،
اگرچہ جائز یہ بھی ہے کہ ماہ شوال کے اندر اندر جب چاہے اور جیسے چاہے رکھ لیے جائیں،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
اور محدثین کے نزدیک یہ روزے رکھنے چائیں تاکہ صوم الدہر کا ثواب مل سکے،
رمضان کا مہینہ 29 کا ہو تب بھی اللہ کے فضل وکرم سے ثواب 30 روزوں کا ہی ملتا ہے اور شوال کے چھ نفلی روزے ملا کرتعداد 36 ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے کریمانہ اصول اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا کے مطابق 36 کا دس گنا 360 ہوگا اور قمری سال کے دن تین سوساٹھ 360 سے کم ہی ہوتے ہیں۔
اس لیے جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ نفلی روزے رکھے،
وہ اس حساب سے 360 روزوں کے اجروثواب کا مستحق ہو گا۔
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ روزے مکروہ ہیں۔
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک متصلاً رمضان کے فوراً بعد مکروہ ہیں لیکن بعد میں الگ جائز ہیں۔
جبکہ متاخرین مالکیہ اور احناف جواز کے قائل ہیں۔
ابن رشد اور ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح کی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2758   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.