الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طہارت کے مسائل
Purification (Kitab Al-Taharah)
80. باب الْوُضُوءِ مِنَ النَّوْمِ
80. باب: نیند (سونے) سے وضو ہے یا نہیں؟
Chapter: Wudu’ From Sleeping.
حدیث نمبر: 201
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، وداود بن شبيب، قالا: حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت البناني، ان انس بن مالك قال:" اقيمت صلاة العشاء، فقام رجل، فقال: يا رسول الله، إن لي حاجة، فقام يناجيه حتى نعس القوم او بعض القوم، ثم صلى بهم ولم يذكر وضوءا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَدَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ:" أُقِيمَتْ صَلَاةُ الْعِشَاءِ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي حَاجَةً، فَقَامَ يُنَاجِيهِ حَتَّى نَعَسَ الْقَوْمُ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ، ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ وَلَمْ يَذْكُرْ وُضُوءًا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عشاء کی نماز کی اقامت کہی گئی، اتنے میں ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، اور کھڑے ہو کر آپ سے سرگوشی کرنے لگا یہاں تک کہ لوگوں کو یا بعض لوگوں کو نیند آ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔ ثابت بنانی نے وضو کا ذکر نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «أخرجه: صحيح مسلم/الحيض/ 33. باب الدليل على أن نوم الجالس لا ينقض الوضوء: فواد 376: دارالسلام 836، من حديث حماد بن سلمة به، تحفة الأشراف: 321، وقد أخرجه: مسند احمد 3/160، 268 (صحيح)»

وضاحت:
اقامت اور تکبیر تحریمہ میں کچھ فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، دوبارہ اقامت کہنے کی ضرورت ہے نہ امام پر یہ واجب ہے کہ تکبیر کے فورا بعد اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ سونا بیٹھے بیٹھے تھا نہ کہ لیٹ کر۔ جیسے کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔

Anas bin Malik reported: (The people) stood up for the night prayer and a man stood up and spoke forth: Messenger of Allah, I have to say something to you. He (the Prophet) entered into secret conversation with him, till the people or some of the people dozed off, ad then he led them in prayer. He (Thabit al-Bunani) did not mention ablution.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 201


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (376)

   صحيح البخاري6292أنس بن مالكأقيمت الصلاة ورجل يناجي رسول الله فما زال يناجيه حتى نام أصحابه ثم قام فصلى
   صحيح البخاري642أنس بن مالكأقيمت الصلاة والنبي يناجي رجلا في جانب المسجد فما قام إلى الصلاة حتى نام القوم
   صحيح البخاري643أنس بن مالكأقيمت الصلاة فعرض للنبي رجل فحبسه بعد ما أقيمت الصلاة
   صحيح مسلم836أنس بن مالكأقيمت صلاة العشاء فقال رجل لي حاجة فقام النبي يناجيه حتى نام القوم ثم صلوا
   صحيح مسلم833أنس بن مالكأقيمت الصلاة ورسول الله نجي لرجل فما قام إلى الصلاة حتى نام القوم
   صحيح مسلم834أنس بن مالكأقيمت الصلاة والنبي يناجي رجلا فلم يزل يناجيه حتى نام أصحابه ثم جاء فصلى بهم
   سنن أبي داود201أنس بن مالكأقيمت صلاة العشاء فقام رجل قال إن لي حاجة فقام يناجيه حتى نعس القوم ثم صلى بهم ولم يذكر وضوءا
   سنن أبي داود542أنس بن مالكأقيمت الصلاة فعرض لرسول الله رجل فحبسه بعد ما أقيمت الصلاة
   سنن أبي داود544أنس بن مالكأقيمت الصلاة ورسول الله نجي في جانب المسجد فما قام إلى الصلاة حتى نام القوم
   سنن النسائى الصغرى792أنس بن مالكما قام إلى الصلاة حتى نام القوم
   جامع الترمذي518أنس بن مالكبعد ما تقام الصلاة يكلمه الرجل يقوم بينه وبين القبلة، فما يزال يكلمه، فلقد رايت بعضنا ينعس من طول قيام النبي صلى الله عليه وسلم له
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 201 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 201  
فوائد و مسائل:
اقامت اور تکبیر تحریمہ میں کچھ فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، دوبارہ اقامت کہنے کی ضرورت ہے، نہ امام پر یہ واجب ہےکہ تکبیر کے فوراً بعد «الله اكبر» کہہ کر نماز شروع کر دے جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 201   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 542  
´اقامت کے بعد امام مسجد نہ پہنچے تو لوگ بیٹھ کر امام کا انتظار کریں۔`
حمید کہتے ہیں میں نے ثابت بنانی سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو نماز کی تکبیر ہو جانے کے بعد بات کرتا ہو، تو انہوں نے مجھ سے انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حدیث بیان کی کہ نماز کی تکبیر کہہ دی گئی تھی کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور اس نے آپ کو تکبیر ہو جانے کے بعد (باتوں کے ذریعے) روکے رکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 542]
542۔ اردو حاشیہ:
➊ اقامت اور تکبیر تحریمہ میں فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں اور مناسب بات کر لینا بھی جائز ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی متواضع انسان تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم ا جمعین کی ازحد دل جوئی فرمایا کرتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 542   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 544  
´اقامت کے بعد امام مسجد نہ پہنچے تو لوگ بیٹھ کر امام کا انتظار کریں۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز (عشاء) کی تکبیر کہی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں ایک شخص سے باتیں کر رہے تھے، تو آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ لوگ سونے لگے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 544]
544۔ اردو حاشیہ:
اس قدر طویل انتظار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے، تاہم اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تکبیر کے بعد امام کسی سے ضروری بات میں مشغول ہو جائے تو ادب و احترام کا تقاضا ہے کہ امام کا انتظار کیا جائے اور اس پر امام کو مطعون نہ کیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 544   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 792  
´اقامت کے بعد امام کو کوئی ضرورت پیش آ جائے جس سے وہ نماز مؤخر کر دے۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی جا چکی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص سے راز داری کی باتیں کر رہے تھے، تو آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ لوگ سونے لگے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 792]
792 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس آدمی سے بات چیت کسی ضروری مسئلے میں ہو گی لہٰذا کوئی ضرورت پڑ جائے تو اقامت اور تکبیر تحریمہ میں فاصلہ ہو سکتا ہے بلکہ صفوں کی تصحیح و ترصیص کے لیے امام اقامت کے بعد ہدایات دے سکتا ہے۔ صفوں کی درستی کے بعد تکبیر تحریمہ کہی جائے۔
➋ لوگ سو گئے۔ یعنی اونگھنے لگے۔ ارکان نماز کی حالتوں می سے کسی حالت میں اونگھنا اس وقت تک وضو کے لیے مضر نہیں جب تک شعور اور فہم و ادراک زائل نہ ہو یعنی گہری نیند نہ سوئے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 792   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 834  
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نماز کے لیے تکبیر کہ دی گئی جبکہ رسول اللہ ﷺ ایک آدمی سے سرگوشی فرما رہے تھے اور آپﷺ سرگوشی فرماتے رہے، یہاں تک کہ آپﷺ کے ساتھی سو گئے، پھر آپﷺ نے آ کر نماز پڑھائی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:834]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نماز کے انتظار میں اگر انسان بیٹھا بیٹھا سو جائے اور نیند اس قدر گہری نہ ہو کہ انسان کو وضو ٹوٹنے کا پتہ ہی نہ چلے ان کا ادراک بدستور قائم ہو،
جس سے ہوا خارج ہونے کا پتہ چل جائے تو پھر وضو نہیں ٹوٹے گا۔
اگر حواس معطل ہو جائیں اور گہری نیند کی بنا پر ادراک و شعور قائم نہ رہے تو نیند مظنہ ہے وضو ٹوٹنے کا اس لیے یوں سمجھا جائے گا کہ وضو ٹوٹ گیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 834   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 836  
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عشاء کی نماز کے لیے اقامت کہ دی گئی تو ایک آدمی نے (رسول اللہ ﷺ سے) کہا، مجھے ایک ضرورت ہے، آپﷺ کھڑے ہو کر اس سے سرگوشی کرنے لگے حتیٰ کہ لوگ سو گئے یا کچھ لوگ سو گئے، پھر سب نے نماز پڑھی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:836]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
احادیث کا مقصد یہ ہے کہ نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا لیکن نیند اگر گہری ہو تو ہوا کے خارج ہو جانے کا احتمال ہے،
اس لیے نیند وضو ٹوٹنے کا محل اور موقع ہے اس لیے اس کا انحصارانسان کے حواس پر ہے اگر یہ خطرہ اور اندیشہ ہو کہ ہوا خارج ہو گئی ہے لیکن گہری نیند ہونے کی بنا پر پتہ نہیں چلا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
اگر یہ خطرہ نہ ہو بلا سبب وقرینہ محض شک و شبہ ہوتو وضو نہیں ٹوٹے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 836   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 642  
642. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت ہو گئی جبکہ نبی ﷺ مسجد کے ایک گوشے میں کسی سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے چنانچہ آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ کچھ لوگوں کو نیند آنے لگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:642]
حدیث حاشیہ:
سونے سے مراد اونگھنا ہے جیسا کہ ابن حبان اوراسحاق بن راہویہ نے روایت کیا ہے کہ بعض لوگ اونگھنے لگے، چونکہ عشاءکی نماز کے وقت میں کافی گنجائش ہے اورباتیں بے حد ضروری تھیں، اس لیے آپ نے نماز کو مؤخر کردیا۔
حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد ان شرعی سہولتوں کو بیان کرنا ہے جو روا رکھی گئی ہیں۔
آج جب کہ مصروفیات زندگی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں اورہر ہر منٹ مصروفیات کا ہے حدیث نبوی ''الإمام ضامن'' کے تحت امام کو بہرحال مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 642   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 643  
643. حمید الطویل فرماتے ہیں: میں نے ثابت بنانی سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اقامت کے بعد گفتگو کرتا ہے، تو انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت ہو چکی تھی کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے آپ کو اقامت ہو جانے کے بعد روک لیا (اور باتیں کرتا رہا)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:643]
حدیث حاشیہ:
یہ آپ ﷺ کے کمال اخلاق حسنہ کی دلیل ہے کہ تکبیر ہو چکنے کے بعد بھی آپ نے اس شخص سے گفتگو جاری رکھی۔
آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب تک ملنے والا خود جدا نہ ہوتا آپ ضرور موجود رہتے۔
یہاں بھی یہی ماجرا ہوا۔
بہرحال کسی خاص موقع پر اگرامام ایسا کرے تو شرعاً اس پر مؤاخذہ نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 643   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:642  
642. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت ہو گئی جبکہ نبی ﷺ مسجد کے ایک گوشے میں کسی سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے چنانچہ آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ کچھ لوگوں کو نیند آنے لگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:642]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ جب مؤذن قد قامت الصلاة کے الفاظ کہہ دے تو امام کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اختتام پر تکبیر تحریمہ کہہ دے اور نماز شروع کردے۔
امام بخاری ؒ فرماتےہیں کہ یہ تشریع ایجادِ بندہ ہے، چنانچہ اقامت کے بعد اگر امام کوکوئی ضرورت آپڑے تو اسے پورا کرسکتا ہے، یعنی اقامت کے فوراً بعد امام کو نماز شروع کرنا لازم نہیں، نیز اگر تاخیر ہو جائے تو اقامت کا اعادہ بھی ضروری نہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد شرعی سہولتوں کو بیان کرنا ہے۔
آج مصروفیاتِ زندگی حد سے بڑھ چکی ہیں، اس لیے امام کو مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن طریقۂ نبوی کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ سونے سے مراد اونگھنا ہے، جیسا کہ ابن حبان کی روایت میں ہے۔
چونکہ عشاء کی نماز کے وقت میں کافی وسعت ہوتی ہے اور باتیں بے حد ضروری تھیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز کو مؤخر فرما دیا، نیز یہ سہولت صرف امام کے لیے ہے، مقتدیوں کے لیے نہیں۔
(فتح الباري: 163/2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان فصل کیا جاسکتا ہے، بلاوجہ ایسا کرنا ناپسندیدہ عمل ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 642   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:643  
643. حمید الطویل فرماتے ہیں: میں نے ثابت بنانی سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اقامت کے بعد گفتگو کرتا ہے، تو انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت ہو چکی تھی کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے آپ کو اقامت ہو جانے کے بعد روک لیا (اور باتیں کرتا رہا)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:643]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے:
رسول اللہ ﷺ اس شخص سے گوشۂ مسجد میں تادیر گفتگو کرتے رہے یہاں تک کے لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔
(حدیث: 642)
اس سے ثابت ہوا کہ کسی شرعی معاملے سے متعلق اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان گفتگو کرنے میں چنداں حرج نہیں۔
رسول اللہ ﷺ تکبیر تحریمہ سے پہلے مقتدی حضرات کو صفیں درست کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔
چونکہ اس قسم کی گفتگو نماز سے متعلق ہے، اس لیے کسی کوبھی اس کے جواز میں کلام نہیں ہے۔
بہرحال کسی خاص ضرورت ومصلحت کے بغیر اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان گفتگو کرنا پسندیدہ عمل نہیں اور ضرورت کے پیش نظر ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
والله أعلم. (2)
حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ اذان اور اس کے متعلقات پر کل 47 احادیث ہیں جن میں 6 معلق، 23 مکرر اور خالص 24 احادیث مروی ہیں، اس کے علاوہ صحابہ و تابعین کے 8 آثار بھی بیان کیے گئے ہیں۔
(فتح الباري: 164/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 643   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6292  
6292. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی جبکہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ سے سرگوشی میں مصروف تھا وہ دیر تک سر گوشی کرتا رہا حتٰی کہ آپ کے صحابہ کرام‬ ؓ ک‬و نیند آنے لگی پھر آپ اٹھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6292]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ اقامت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں ایک آدمی سے سرگوشی کرتے رہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 642)
دوسری روایت میں ہے کہ جب تکبیر کہی گئی تو ایک آدمی آیا اور اس نے آپ کو روک کر سرگوشی شروع کر دی۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 643) (2)
ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تکبیر کے بعد ضروری بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6292   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.