الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wal-Hajj)
65. باب الصَّلاَةِ بِجَمْعٍ
65. باب: مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Salat Al Jam’ (Al-Muzdalifah).
حدیث نمبر: 1933
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو الاحوص، حدثنا اشعث بن سليم، عن ابيه، قال:" اقبلت مع ابن عمر من عرفات إلى المزدلفة فلم يكن يفتر من التكبير والتهليل حتى اتينا المزدلفة، فاذن واقام، او امر إنسانا فاذن واقام، فصلى بنا المغرب ثلاث ركعات، ثم التفت إلينا، فقال: الصلاة، فصلى بنا العشاء ركعتين، ثم دعا بعشائه، قال: واخبرني علاج بن عمرو بمثل حديث ابي، عن ابن عمر، قال: فقيل لابن عمر في ذلك: فقال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم هكذا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَقْبَلْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ مِنْ عَرَفَاتٍ إِلَى الْمُزْدَلِفَةِ فَلَمْ يَكُنْ يَفْتُرُ مِنَ التَّكْبِيرِ وَالتَّهْلِيلِ حَتَّى أَتَيْنَا الْمُزْدَلِفَةَ، فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، أَوْ أَمَرَ إِنْسَانًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، فَصَلَّى بِنَا الْمَغْرِبَ ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: الصَّلَاةُ، فَصَلَّى بِنَا الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ دَعَا بِعَشَائِهِ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي عِلَاجُ بْنُ عَمْرٍو بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: فَقِيلَ لِابْنِ عُمَرَ فِي ذَلِكَ: فَقَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا".
سلیم بن اسود ابوالشعثاء محاربی کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ عرفات سے مزدلفہ آیا وہ تکبیر و تہلیل سے تھکتے نہ تھے، جب ہم مزدلفہ آ گئے تو انہوں نے اذان کہی اور اقامت، یا ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اذان اور اقامت کہے، پھر ہمیں مغرب تین رکعت پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: عشاء پڑھ لو چنانچہ ہمیں عشاء دو رکعت پڑھائی پھر کھانا منگوایا۔ اشعث کہتے ہیں: اور مجھے علاج بن عمرو نے میرے والد کی حدیث کے مثل حدیث کی خبر دی ہے جو انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لوگوں نے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرح نماز پڑھی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 7091) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس میں دونوں نمازیں کے لئے اذان ثابت و محفوظ ہے، (1928) کی حدیث میں اذان کا انکار ہے، جو شاذ و ضعیف ہے جیسا کہ گزرا، نیز اس روایت میں دوسری اقامت کی جگہ «الصلاة» کا لفظ ہے جو شاذ ہے، محفوظ دوسری مرتبہ اقامت کا لفظ ہے)

Ashath bin Sulaim reported on the authority of his father “I proceeded along with Ibn Umar from ‘Arafah towards Al Muzdalifah. ” He was not tiring of uttering “Allaah is most great” and “There is no god but Allaah”, till we came to Al Muzdalifah. He uttered the adhan and the iqamah or ordered some person who called the adhan and the iqamah. He then led us the three rak’ahs of the sunset prayers and turned to us and said (Another) prayer. Thereafter he led us in the two rak’ahs of the night prayer. Then he called for his dinner. He (Ashath) said ‘Ilaj bin Amr reported a tradition like that of my father on the authority of Ibn Umar. Ibn Umar was asked about it. He said “I prayed along with the Messenger of Allah ﷺ in a similar manner. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1928


قال الشيخ الألباني: صحيح لكن قوله ف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن النسائى الصغرى482عبد الله بن عمرأقام فصلى المغرب ثلاث ركعات ثم أقام فصلى يعني العشاء ركعتين
   سنن النسائى الصغرى484عبد الله بن عمربجمع المغرب ثلاثا بإقامة ثم سلم ثم صلى العشاء ركعتين
   سنن النسائى الصغرى485عبد الله بن عمرصلى بجمع فأقام فصلى المغرب ثلاثا ثم صلى العشاء ركعتين
   سنن النسائى الصغرى592عبد الله بن عمرصلى المغرب ثلاث ركعات ثم صلى ركعتين على إثرها
   سنن النسائى الصغرى601عبد الله بن عمرجمع بين المغرب والعشاء
   سنن النسائى الصغرى607عبد الله بن عمرجمع بين المغرب والعشاء فلما فرغ قال فعل رسول الله في هذا المكان مثل هذا
   سنن النسائى الصغرى608عبد الله بن عمرصلى المغرب والعشاء بالمزدلفة
   صحيح البخاري1673عبد الله بن عمرجمع النبي بين المغرب والعشاء بجمع كل واحدة منهما بإقامة ولم يسبح بينهما ولا على إثر كل واحدة منهما
   صحيح مسلم3110عبد الله بن عمرصلى المغرب والعشاء بالمزدلفة جميعا
   صحيح مسلم3111عبد الله بن عمرجمع رسول الله بين المغرب والعشاء بجمع ليس بينهما سجدة وصلى المغرب ثلاث ركعات وصلى العشاء ركعتين
   صحيح مسلم3115عبد الله بن عمرصلى بنا المغرب والعشاء بإقامة واحدة ثم انصرف
   صحيح مسلم3114عبد الله بن عمرجمع رسول الله بين المغرب والعشاء بجمع صلى المغرب ثلاثا والعشاء ركعتين بإقامة واحدة
   جامع الترمذي887عبد الله بن عمرصلى بجمع فجمع بين الصلاتين بإقامة
   سنن أبي داود1931عبد الله بن عمرصلى بنا المغرب والعشاء بإقامة واحدة ثلاثا واثنتين فلما انصرف
   سنن أبي داود1929عبد الله بن عمرصليتهما مع رسول الله في هذا المكان بإقامة واحدة
   سنن أبي داود1926عبد الله بن عمرصلى المغرب والعشاء بالمزدلفة جميعا
   سنن أبي داود1933عبد الله بن عمرأذن وأقام فصلى بنا المغرب ثلاث ركعات ثم التفت إلينا فقال الصلاة فصلى بنا العشاء ركعتين ثم دعا بعشائه
   سنن أبي داود1932عبد الله بن عمرصلى المغرب ثلاثا ثم صلى العشاء ركعتين
   سنن النسائى الصغرى658عبد الله بن عمركنا معه بجمع فأذن ثم أقام فصلى بنا المغرب ثم قال الصلاة فصلى بنا العشاء ركعتين
   سنن النسائى الصغرى659عبد الله بن عمرصلى المغرب والعشاء بجمع بإقامة واحدة
   سنن النسائى الصغرى660عبد الله بن عمرصلى مع رسول الله بجمع بإقامة واحدة
   سنن النسائى الصغرى661عبد الله بن عمرجمع بينهما بالمزدلفة صلى كل واحدة منهما بإقامة لم يتطوع قبل واحدة منهما ولا بعد
   سنن النسائى الصغرى3031عبد الله بن عمرجمع بين المغرب والعشاء بجمع بإقامة واحدة لم يسبح بينهما ولا على إثر كل واحدة منهما
   سنن النسائى الصغرى3032عبد الله بن عمرجمع رسول الله بين المغرب والعشاء ليس بينهما سجدة صلى المغرب ثلاث ركعات والعشاء ركعتين
   سنن النسائى الصغرى3033عبد الله بن عمرصلى رسول الله المغرب والعشاء بجمع بإقامة واحدة
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1933 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1933  
1933. اردو حاشیہ: علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کی بابت لکھتے ہیں کہ (فقال الصلاۃ) (آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا نماز!)کے الفاظ شاذ ہیں۔البتہ(فاقام الصلاۃ) تکبیر کہلوائی کے الفاظ صحیح تر ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1933   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 482  
´مغرب کی نماز کا بیان۔`
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر کو مزدلفہ میں دیکھا، انہوں نے اقامت کہی، اور مغرب کی نماز تین رکعت پڑھی، پھر اقامت کہی، اور عشاء کی نماز دو رکعت پڑھی، پھر انہوں نے ذکر کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے ان کے ساتھ اسی جگہ میں ایسا ہی کیا، اور ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بھی) اس جگہ میں ایسا ہی کیا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 482]
482 ۔ اردو حاشیہ: مغرب کی نماز سفروحضر میں تین رکعت ہی رہتی ہے کیونکہ یہ دن کے وتر ہیں، نصف کرنا ممکن نہیں ہے۔ دورکعا ت پڑھی جائیں تو وترنہیں رہے گی جب کہ عشاء کی نماز سفر میں دورکعت ہو جاتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 482   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 592  
´مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
قریش کے ایک شیخ اسماعیل بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں حمی ۱؎ تک ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہا، جب سورج ڈوب گیا تو میں ڈرا کہ ان سے یہ کہوں کہ نماز پڑھ لیجئیے، چنانچہ وہ چلتے رہے، یہاں تک کہ افق کی سفیدی اور ابتدائی رات کی تاریکی ختم ہو گئی، پھر وہ اترے اور مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں، پھر اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 592]
592 ۔ اردو حاشیہ: ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جمع تاخیر کی ہے، یعنی مغرب کا وقت ختم ہو جانے کے بعد اور عشاء کا وقت آجانے پر دونوں نمازیں پڑھی تھیں۔ گویا سفر میں جمع تاخیر بھی جائز ہے کیونکہ اس میں سہولت ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 592   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 601  
´جمع بین الصلاتین کے احوال و ظروف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 601]
601 ۔ اردو حاشیہ: گویا سفر کی حالت میں آدمی دو نمازیں اکٹھی پڑھ سکتا ہے اور یہ اتفاقی مسئلہ ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 601   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 661  
´جو شخص جمع بین الصلاتین کرے وہ اقامت ایک بار کہے یا دو بار کہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں دو نمازیں جمع کیں (اور) ان دونوں میں سے ہر ایک کو ایک اقامت سے پڑھا ۱؎ اور ان دونوں (نمازوں) سے پہلے اور بعد میں کوئی نفل نہیں پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 661]
661 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں ہر نماز کے لیے الگ اقامت کا ذکر ہے جب کہ پچھلی تین روایات میں دونوں کے لیے ایک اقامت کا ذکر ہے اور یہ چاروں روایات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے ہیں۔ پچھلے باب کی پہلی روایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہے اور اس میں صراحتاً دو اقامتوں کا ذکر ہے اور یہی صحیح ہے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی دو اقامتوں کی صراحت آئی ہے، لہٰذا جس روایت میں ایک اقامت کا ذکر ہے اس سے مراد ہر نماز کے لیے ایک اقامت ہو گی یا پھر ایک اقامت والی روایت شاذ ہے۔ لیکن بعض کا کہنا ہے کہ جب اس طرح تطبیق ممکن ہے تو پھر شذوذ کے دعوے کی ضرورت نہیں، البتہ اذان ایک ہی کافی ہے کیونکہ وہ صرف لوگوں کو بلانے کے لیے ہوتی ہے۔ جمع کی صورت میں دوسری نماز کے لیے لوگ پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 661   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3031  
´مزدلفہ میں دو نمازیں ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء دونوں ایک ساتھ ایک تکبیر سے پڑھیں، نہ ان دونوں کے بیچ میں کوئی نفل پڑھی، اور نہ ہی ان دونوں نمازوں کے بعد۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3031]
اردو حاشہ:
(1) ایک اقامت کے ساتھ احناف نے اسی کو اختیار کیا ہے، بشرطیکہ عشاء کی نماز مغرب سے متصل پڑھ لی جائے اور اگر فاصلہ ہو جائے تو عشاء کے لیے الگ اقامت کہی جائے، البتہ عرفات میں ظہر و عصر دو اقامت سے پڑھی جائیں گی کیونکہ عصر اپنے وقت سے پہلے پڑھی جا رہی ہے۔ لیکن احناف کا یہ موقف صحیح نہیں، اس لیے کہ یہی روایت صحیح بخاری (حدیث نمبر 1673) میں بھی ہے، وہاں دونوں نمازوں کے لیے الگ الگ اقامت کی تصریح موجود ہے اور محدث کبیر شیخ البانی رحمہ اللہ نے انھیں الفاظ کو محفوظ قرار دیا ہے، اس لیے راجح اور صحیح موقف یہی ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرنے کی صورت میں اقامت الگ الگ ہی کہی جائے گی۔ جمہور اہل علم کا مسلک بھی یہی ہے، البتہ اذان ایک ہی ہوگی۔
(2) نوافل ادا نہیں کیے دو نمازیں جمع کر کے پڑھنے کی صورت میں نوافل نہیں پڑھے جائیں گے، خواہ حج میں اکٹھی پڑھی جائیں یا عام سفر میں یا (مجبوراً) گھر میں۔ یہ متفقہ اصول ہے۔ نہ درمیان میں، نہ آخر میں، یعنی نہ پہلی نماز کے بعد نہ دوسری کے بعد۔ جمع تقدیم کی صورت ہو، جیسے عرفات میں تھی یا جمع تاخیر کی، جیسے مزدلفہ میں تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3031   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3033  
´مزدلفہ میں دو نمازیں ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء دونوں ایک اقامت سے پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3033]
اردو حاشہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہی روایت صحیح بخاری میں ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت کے الفاظ کے ساتھ ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1673) اور یہی محفوظ ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3033   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1929  
´مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مغرب تین رکعت اور عشاء دو رکعت پڑھی، تو مالک بن حارث نے ان سے کہا: یہ کون سی نماز ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ دونوں اسی جگہ ایک تکبیر سے پڑھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1929]
1929. اردو حاشیہ: اس حدیث میں ایک ہی تکبیر سے دو نمازوں کے پڑھنے کا زکر ہے۔جبکہ ہرنماز کے لئے الگ الگ سے اقامت کہناصحیح تر احادیث سے ثابت ہے۔(صحیح البخاری الحج حدیث۔1673)اسی حدیث کی بابت شیخ البانی کہتے ہیں۔کہ یہ روایت (لکل صلاۃ) (یعنی ہرنماز کےلئے الگ الگ تکبیر کہی) کی زیادتی کے ساتھ صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1929   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1931  
´مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ہم (عرفات سے) ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ لوٹے، جب ہم جمع یعنی مزدلفہ پہنچے تو آپ نے ہمیں مغرب اور عشاء، تین رکعت مغرب کی اور دو رکعت عشاء کی ایک اقامت ۱؎ سے پڑھائی، جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ہم سے کہا: اسی طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ پڑھائی تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1931]
1931. اردو حاشیہ: اس میں بھی ایک اقامت کا زکر ہے۔جو درست نہیں ہے جیسا کہ گزشتہ حدیث میں گزرا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1931   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1932  
´مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں میں نے سعید بن جبیر کو دیکھا انہوں نے مزدلفہ میں اقامت کہی پھر مغرب تین رکعت پڑھی اور عشاء دو رکعت، پھر آپ نے کہا: میں نے دیکھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس مقام پر اسی طرح کیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقام پر اسی طرح کرتے دیکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1932]
1932. اردو حاشیہ: اس حدیث میں بھی ایک تکبیر کازکر ہے۔جو کہ درست نہیں ہے۔دیکھئے گزشتہ احادیث کے فوائد۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1932   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 887  
´مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی الله عنہما نے مزدلفہ میں نماز پڑھی اور ایک اقامت سے مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں ایک ساتھ ملا کر پڑھیں اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ پر ایسے ہی کرتے دیکھا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 887]
اردو حاشہ:
1؎:
اس کے بر خلاف جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے ایک اذان اور دو تکبیروں سے دونوں نمازیں ادا کیں اور یہی راجح ہے،
واللہ اعلم۔

نوٹ:
(ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت کے ذکر کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے/ دیکھئے اگلی روایت)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 887   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3115  
سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، ہم ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ واپس مزدلفہ پہنچے، انہوں نے ہمیں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اقامت سے پڑھائیں، پھر پلٹ کر بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ ہمیں اسی طرح نماز پڑھائی تھی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3115]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
ابن حزم کے نزدیک مزدلفہ میں دونوں نمازوں کو ایک اذان اور دوتکبیروں کے ساتھ ادا کرنا مسنون ہے۔
امام زفر اور امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف بھی یہی ہے،
بعض احناف کے نزدیک دونوں کے لیے ایک اذان اور ایک اقامت ہے،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کے مطابق اورامام خرقی اورابن المنذر کا قول بھی یہ ہے،
بلا اذان ہر نماز کے لیے الگ الگ تکبیر ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہر نماز کے لیے الگ اذان اورالگ تکبیر ہے۔
یہ ابن عمر،
عمر اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا فعل ہے اس کے بارے میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3115   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1673  
1673. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا۔ ان میں ہر ایک نماز کی تکبیر الگ الگ تھی۔ ان دونوں کے درمیان نفل نہیں پڑھے اور نہ ان میں سے کسی کے بعد نفل ہی ادا کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1673]
حدیث حاشیہ:
عینی نے اس سلسلہ میں علماءکے چھ قول نقل کئے ہیں آخری قول یہ کہ پہلی نماز کے لیے اذان کہے اور دونوں کے لیے الگ الگ تکبیر کہے۔
شافعیہ اور حنابلہ کا یہی قول ہے اسی کو ترجیح ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1673   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1673  
1673. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا۔ ان میں ہر ایک نماز کی تکبیر الگ الگ تھی۔ ان دونوں کے درمیان نفل نہیں پڑھے اور نہ ان میں سے کسی کے بعد نفل ہی ادا کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1673]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جب مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا جائے تو ان کے درمیان نوافل وغیرہ نہ پڑھے جائیں اور نہ ان کے بعد نفل وغیرہ ہی ادا کرنے چاہئیں کیونکہ جمع کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان دوسری کوئی نماز نہ ادا کی جائے۔
یہ تاویل کرنا کہ نماز عشاء کے متصل بعد نفل پڑھنے منع ہیں، اس کے بعد رات کے کسی حصے میں پڑھے جا سکتے ہیں۔
ایسا کرنا محض سخن سازی ہے کیونکہ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء پڑھ کر لیٹ گئے حتی کہ فجر طلوع ہو گئی۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218) (2)
سنت یہی ہے کہ اس رات نماز عشاء دو رکعت ادا کر کے انسان سو جائے۔
اتباع سنت میں خیر و برکت ہے اور قیامت کے دن یہی ذریعۂ نجات ہو گا۔
ان مقامات میں شارع ؑ کو یہ بات محبوب ہے کہ مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا جائے۔
ان کے درمیان یا عشاء کے بعد کوئی نوافل ادا نہ کیے جائیں۔
جس کام سے محبوب راضی ہو، محبت کے دعویدار کو بھی وہ کام ذوق و شوق سے انجام دینا چاہیے، البتہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ مزدلفہ میں نماز مغرب کے بعد دو سنت پڑھتے تھے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1675)
ممکن ہے کہ انہوں نے اسے نماز عشاء کے ساتھ ملا کر نہ پڑھا ہو۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1673   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.