اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی روایت مروی ہے البتہ اس میں (ابوعبیدہ نے) یہ اضافہ کیا ہے کہ میرے والد اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدل رہے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لئے بھیجا کہ آپ اس اونٹ کو جو آپ نے انہیں دیا تھا صدقہ کے اونٹ سے بدل دیں اس مفہوم کے لحاظ سے «من الصدقة“”يبدلها» سے متعلق ہو گا، ناکہ «أعطاها» سے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ اونٹ صدقہ کے علاوہ مال سے دیا تھا، پھر جب صدقہ کے اونٹ آئے تو انہوں نے اسے بدلنا چاہا اس صورت میں خطابی اور بیہقی کی اس تاویل کی ضرورت نہیں جو انہوں نے اوپر والی حدیث کے سلسلہ میں کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:6350) (صحیح)»
The aforesaid tradition has also been transmitted by Ibn Abbas through a different chain of narrators in a similar manner. This version adds: “My father exchanged them for him”.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1650
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الأعمش وحبيب مدلسان وعنعنا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 66
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1654
1654. اردو حاشیہ: علامہ خطابی کہتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ صدقہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے حرام تھا۔۔۔۔اور حدیث مختصر ر وایت ہونے کے باعث اس میں اس سبب کا زکر نہیں آیا۔جس کی بناء پر انہیں یہ اونٹ دیے گئے تھے۔جوشاید یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان سے کچھ اونٹ اُدھار لیے تھے۔ اور جب واپس کیے تھے تو حقیقت میں وہ صدقے کے تھے۔ اور امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی کہنا ہے۔ کے اس روایت کے دو معنی ہیں۔۔۔۔ممکن ہے کہ یہ تحریم صدقہ سے پہلے کی بات ہو۔اور آل رسول ﷺ کے لئے حرمت صدقہ بعد میں نازل ہوئی ہو۔ اور دوسرے معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ شاید آپ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اونٹ مساکین کےلئے ادھار لئے تھے۔ جو بعد میں آپ نے صدقہ کے اونٹوں میں سے واپس کیے۔(عون المعبود]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1654