(موقوف) حدثنا احمد بن محمد المروزي ابن شبويه، حدثني علي بن حسين، عن ابيه، عن يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس،قال في المزمل: قم الليل إلا قليلا {2} نصفه سورة المزمل آية 1-2 نسختها الآية التي فيها علم ان لن تحصوه فتاب عليكم فاقرءوا ما تيسر من القرءان سورة المزمل آية 20 وناشئة الليل: اوله، وكانت صلاتهم لاول الليل، يقول: هو اجدر ان تحصوا ما فرض الله عليكم من قيام الليل، وذلك ان الإنسان إذا نام لم يدر متى يستيقظ، وقوله: واقوم قيلا سورة المزمل آية 6 هو اجدر ان يفقه في القرآن، وقوله: إن لك في النهار سبحا طويلا سورة المزمل آية 7، يقول: فراغا طويلا. (موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ ابْنِ شَبُّوَيْهِ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،قَالَ فِي الْمُزَّمِّلِ: قُمِ اللَّيْلَ إِلا قَلِيلا {2} نِصْفَهُ سورة المزمل آية 1-2 نَسَخَتْهَا الْآيَةُ الَّتِي فِيهَا عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْءَانِ سورة المزمل آية 20 وَنَاشِئَةُ اللَّيْلِ: أَوَّلُهُ، وَكَانَتْ صَلَاتُهُمْ لِأَوَّلِ اللَّيْلِ، يَقُولُ: هُوَ أَجْدَرُ أَنْ تُحْصُوا مَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ، وَذَلِكَ أَنَّ الْإِنْسَانَ إِذَا نَامَ لَمْ يَدْرِ مَتَى يَسْتَيْقِظُ، وَقَوْلُهُ: وَأَقْوَمُ قِيلا سورة المزمل آية 6 هُوَ أَجْدَرُ أَنْ يَفْقَهَ فِي الْقُرْآنِ، وَقَوْلُهُ: إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلا سورة المزمل آية 7، يَقُولُ: فَرَاغًا طَوِيلًا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں سورۃ مزمل کی آیت «قم الليل إلا قليلا، نصفه»۱؎”رات کو کھڑے رہو مگر تھوڑی رات یعنی آدھی رات“ کو دوسری آیت «علم أن لن تحصوه فتاب عليكم فاقرءوا ما تيسر من القرآن»۲؎”اسے معلوم ہے کہ تم اس کو پورا نہ کر سکو گے لہٰذا اس نے تم پر مہربانی کی، لہٰذا اب تم جتنی آسانی سے ممکن ہو (نماز میں) قرآن پڑھا کرو“ نے منسوخ کر دیا ہے، «ناشئة الليل» کے معنی شروع رات کے ہیں، چنانچہ صحابہ کی نماز شروع رات میں ہوتی تھی، اس لیے کہ رات میں جو قیام اللہ نے تم پر فرض کیا تھا اس کی ادائیگی اس وقت آسان اور مناسب ہے کیونکہ انسان سو جائے تو اسے نہیں معلوم کہ وہ کب جاگے گا اور «أقوم قيلا» سے مراد یہ ہے رات کا وقت قرآن سمجھنے کے لیے بہت اچھا وقت ہے اور اس کے قول «إن لك في النهار سبحا طويلا»۳؎ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے کام کاج کے واسطے دن کو بہت فرصت ہوتی ہے (لہٰذا رات کا وقت عبادت میں صرف کیا کرو)۔
وضاحت: ۱؎: سورة المزمل: (۲،۳)۲؎: سورة المزمل: (۲۰)۳؎: سورة المزمل: (۷)
Narrated Abdullah Ibn Abbas: In Surat al-Muzzammil (73), the verse: "Keep vigil at night but a little, a half thereof" (2-3) has been abrogated by the following verse: "He knoweth that ye count it not, and turneth unto you in mercy. Recite then of the Quran that which is easy for you" (v. 20). The phrase "the vigil of the night" (nashi'at al-layl) means the early hours of the night. They (the companions) would pray (the tahajjud prayer) in the early hours of the night. He (Ibn Abbas) says: It is advisable to offer the prayer at night (tahajjud), prescribed by Allah for you (in the early hours of the night). This is because when a person sleeps, he does not know when he will awake. The words "speech more certain" (aqwamu qilan) means that this time is more suitable for the understanding of the Quran. He says: The verse: "Lo, thou hast by day a chain of business" (v. 7) means engagement for long periods (in the day's work).
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1299
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1304
1304. اردو حاشیہ: فائدہ: آیات کا ترجمہ یہ ہے: ➊ ”رات میں قیام کیجئے (نماز پڑھیے) مگر تھوڑا سا، یعنی رات کا نصف۔ ➋ ”اسے علم ہے کہ تم اسے نبھا نہیں سکو گے، چنانچہ اس نے تم پر مہربانی کی، پھر قرآن میں سے جتنا آسان ہو تم پڑھو۔“ ➌ ”بلاشبہ رات کا اٹھنا (نفس کے لیے) کچلنے میں زیادہ سخت اور دعا ذکر نے لیے مناسب تر ہے۔“ ➍ ”یقیناً دن میں آپ کےلیے بہت مصروفیت ہے۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1304