464 - اخبرنا ابو طاهر عبد الغفار بن محمد بن زيد المؤدب قراءة عليه وانا اسمع من سنة تسع وعشرين واربعمائة، فاقر به قال: انا ابو علي محمد بن احمد بن الحسن بن الصواف قراءة عليه وانا اسمع فاقر به، قال: ثنا ابو علي بشر بن موسي قال: ثنا الحميدي قال: ثنا الزهري قال: ثني كثير بن عباس، عن ابيه قال: كنت مع النبي صلي الله عليه وسلم يوم حنين ورسول الله صلي الله عليه وسلم علي بغلته التي اهداها له الجذامي فلما ولي المسلمون قال لي رسول الله صلي الله عليه وسلم: «يا عباس ناد» قلت: يا اصحاب السمرة يا اصحاب سورة البقرة وكنت رجلا صيتا فقلت: يا اصحاب السمرة يا اصحاب سورة البقرة فرجعوا عطفة كعطفة البقرة علي اولادها وارتفعت الاصوات وهم يقولون معشر الانصار يا معشر الانصار ثم قصرت الدعوة علي بني الحارث بن الخزرج يا بني الحارث قال: وتطاول رسول الله صلي الله عليه وسلم وهو علي بغلته فقال:" هذا حين حمي الوطيس وهو يقول: قدما يا عباس" ثم اخذ رسول الله صلي الله عليه وسلم حصيات فرمي بهن ثم قال: «انهزموا ورب الكعبة» وربما قال سفيان «ورب محمد» قال سفيان حدثناه الزهري بطوله فهذا الذي حفظت منه464 - أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرْ عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْمُؤَدِّبُ قِرَاءَةُ عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ مِنْ سَنَةِ تِسْعٍ وَعِشرينَ وَأَرْبَعِمِائَةٍ، فَأَقَرَّ بِهِ قَالَ: أنا أَبُو عَلِيٍّ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الصَّوَّافِ قِرَاءَةُ عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ فَأََقَرَّ بِهِ، قَالَ: ثنا أَبُو عَلِيٍّ بِشْرُ بْنُ مُوسَي قَالَ: ثنا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ قَالَ: ثني كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَي بَغْلَتِهِ الَّتِي أَهْدَاهَا لَهُ الْجُذَامِيُّ فَلَمَّا وَلَّي الْمُسْلِمُونَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَبَّاسُ نَادِ» قُلْتُ: يَا أَصْحَابَ السَّمُرَةِ يَا أَصْحَابَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَكُنْتُ رَجُلًا صَيِّتًا فَقُلْتُ: يَا أَصْحَابَ السَّمُرَةِ يَا أَصْحَابَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فَرَجَعُوا عَطْفَةً كَعَطْفَةِ الْبَقَرَةِ عَلَي أَوْلَادِهَا وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَهُمْ يَقُولُونَ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ثُمَّ قَصَرْتُ الدَّعْوَةُ عَلَي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ يَا بَنِي الْحَارِثِ قَالَ: وَتَطَاوَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَي بَغْلَتِهِ فَقَالَ:" هَذَا حِينَ حَمِيَ الْوَطِيسُ وَهُوَ يَقُولُ: قُدُمًا يَا عَبَّاسُ" ثُمَّ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَيَاتٍ فَرَمَي بِهِنَّ ثُمَّ قَالَ: «انْهَزَمُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ» وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ «وَرَبِّ مُحَمَّدٍ» قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ بِطُولِهِ فَهَذَا الَّذِي حَفِظْتُ مِنْهُ
464- کثیر بن عباس اپنے والد سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: غزوۂ حنین کے موقع پر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس خچر پر سوار تھے، جو جذامی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے کے طور پر دیا تھا۔ جب مسلمان پیچھے ہٹنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے عباس! آپ بلند آواز میں پکاریں اور کہیں اے درخت! (کے نیچے بیعت کرنے والو) اے سورۂ بقرہ (پر ایمان رکھنے والو)!“ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک ایسا شخص تھا، جس کی آواز بلند تھی، تو میں نے بلند آواز میں پکارا، اے درخت (کے نیچے بیعت کرنے والو)! اے سورۂ بقرہ (پر ایمان رکھنے والو)! تو وہ لوگ یکبارگی یوں پلٹے جس طرح گائے اپنی اولاد کی طرف پلٹتی ہے۔ آوزیں بلند ہوئیں اور وہ لوگ یہ کہہ رہے تھے، اے انصار کے گروہ! اے انصار کے گروہ! پھر دعوت کو مختصر کرکے بنو حارث بن خزرج کی طرف کیا گیا اور کہا گیا: اے بنو حارث! سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار رہتے ہوئے جنگ کا جائزہ لیتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اب جنگ اچھی طرح بھڑک اٹھی ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ”اے عباس ()! آپ آگے بڑھئے“۔پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کنکریاں پکڑیں اور انہیں پھینکا اور یہ فرمایا: ”رب کعبہ کی قسم! یہ پسپا ہوجائیں گے۔“ سفیان نامی راوی بعض اوقات یہ لفظ نقل کرتے ہیں: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پروردگار کی قسم! سفیان کہتے ہیں: زہری نے یہ طویل حدیث ہمیں سنائی تھی، لیکن اس کا یہ حصہ مجھے یاد رہ گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1775، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7049، والحاكم فى «مستدركه» ، برقم: 5147، 5459، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8593، 8599، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 1800 برقم: 1801، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6708، والبزار فى «مسنده» برقم: 1301، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9741»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:464
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ حنین میں خود شریک ہوئے تھے، خچر پر سواری کرنا درست ہے، تحفہ دینا اور قبول کرنا چاہیے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر اسی وقت لبیک کہتے تھے، لڑائی کو فائده آگ سے تعبیر کرنا ٹھیک ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 464