334 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا يزيد بن ابي زياد انه سمع عبد الله بن الحارث يحدث عن ام هانئ قالت: «رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم يوم الفتح صلي ثمان ركعات في ثوب واحد مخالفا بين طرفيه» 334 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ عَنْ أُمِّ هَانِئٍ قَالَتْ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ صَلَّي ثَمَانِ رَكَعَاتٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ مُخَالِفًا بَيْنَ طَرَفِيهِ»
334- سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: فتح مکہ کے موقع پر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑا اوڑھ کر اسے مخالف سمت میں کندھوں پر ڈال کر آٹھ رکعات نماز ادا کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد، غير أن الحديث صحيح، وقد أخرجه البيهقي فى الصلاة 48/3 باب: ذكر من رواها ثمان ركعات، من طريق سفيان، بهذا الإسناد، ولتمام التخريج انظرسابقه»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:334
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز چاشت کی آٹھ رکعات پڑھنا بھی مسنون ہے۔ فتح مکہ ایک عظیم انعام باری تعالیٰ تھا، اس کے شکرانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز چاشت کی آٹھ رکعات ادا کیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ سفر و حضر میں نماز چاشت کا اہتمام کرنا چاہیے، نماز چاشت کی دو رکعات بھی ثابت ہیں۔ (صحیح البخاری: 721) بلکہ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تین باتوں کی وصیت کی تھی، جن میں ایک یہ بھی تھی کہ میں چاشت کی دو رکعتوں کو کبھی نہ چھوڑوں۔ (صحیح ابن خزیمہ: 7083) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آدمی کے ہر جوڑ پر ہر صبح صدقہ ہوتا ہے، اور ان سب اعضاء (جوڑوں) کا صدقہ نماز چاشت کی دو رکعتیں ہیں۔ (صحیح مسلم: 720) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طلوع آفتاب کے بعد دو رکعتیں پڑھنے والے کو مکمل حج وعمرہ کا ثواب ملے گا۔ (سنن ترمذی: 586، اسناده صحیح) نماز چاشت اور نماز اشراق دو الگ الگ نماز میں ہیں، اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج طلوع ہونے کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے، پھر وقفہ کرتے، یہاں تک کہ چاشت کے وقت تک آ فتاب بلند ہو جاتا، تو پھر چار رکعت پڑھتے تھے۔ (سنن ترمذی: 475، سندہ حسن) یادر ہے کہ سورج طلوع ہونے سے نماز اشراق کا وقت شروع ہو جاتا ہے، اور جب سورج کی گرمی کچھ تیز ہو جائے تو نماز چاشت کا وقت شروع ہو جاتا ہے، اور سورج کے زوال تک رہتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 334