21 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، عن معمر وغيره، عن الزهري، عن السائب بن يزيد، عن حويطب بن عبد العزي، عن ابن السعدي، انه قدم علي عمر بن الخطاب من الشام فقال له عمر: الم اخبر انك تلي اعمالا من اعمال المسلمين فتعطي عمالتك فلا تقبل، فقلت: اجل إن لي افراسا او لي اعبدا وانا بخير، واريد ان يكون عملي صدقة علي المسلمين، فقال عمر: فلا تفعل فإني قد اردت مثل الذي اردت وإن رسول الله صلي الله عليه وسلم كان يعطيني العطاء فاقول: اعطه من هو احوج مني، وإنه اعطاني مرة مالا فقلت: اعطه من هو احوج إليه مني فقال: «يا عمر ما اتاك الله به من هذا المال عن غير مسالة ولا إشراف نفس فخذه، فتموله وتصدق به، وما لا فلا تتبعه نفسك» 21 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مَعْمَرٍ وَغَيْرِهِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ حُوَيْطِبِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّي، عَنِ ابْنِ السَّعْدِيِّ، أَنَّهُ قَدِمَ عَلَي عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مِنَ الشَّامِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَلِي أَعْمَالًا مِنْ أَعْمَالِ الْمُسْلِمِينَ فَتُعْطَي عُمَالَتَكَ فَلَا تَقْبَلُ، فَقُلْتُ: أَجَلْ إِنَّ لِي أَفْرَاسًا أَوْ لِي أَعْبُدًا وَأَنَا بِخَيْرٍ، وَأُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَي الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ عُمَرُ: فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي قَدْ أَرَدْتُ مِثْلَ الَّذِي أَرَدْتَ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَحْوَجُ مِنِّي، وَإِنَّهُ أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا فَقُلْتُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنِّي فَقَالَ: «يَا عُمَرُ مَا أَتَاكَ اللَّهُ بِهِ مِنْ هَذَا الْمَالِ عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ وَلَا إِشْرَافِ نَفْسٍ فَخُذْهُ، فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ، وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ»
ابن سعدی بیان کرتے ہیں: وہ ”شام“ سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: مجھے پتہ چلا ہے تم کوئی سرکاری فرائض انجام دیتے رہے ہو اور جب تمہیں تنخواہ دی جانے لگی، تو تم نے اسے قبول نہیں کیا؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں، میرے پاس گھوڑے ہیں۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں)”میرے پاس غلام ہیں اور میں اچھی حالت میں ہوں۔“ تو میں یہ چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے لیے صدقہ ہو جائے، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم ایسا نہ کرو، کیونکہ جو ارادہ تم نے کیا ہے اس طرح کا ارادہ ایک مرتبہ میں نے بھی کیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مجھے کچھ عطا کرتے تھے، تو میں یہ گزارش کرتا تھا کہ آپ یہ اسے دے دیں جس کو مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو۔ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مال دیا تو میں نے عرض کی: آپ یہ اسے عطا کر دیجئے جسے مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عمر! اللہ تعالیٰ مانگے بغیر اور تمہاری دلچسپی ظاہر کیے بغیر اس مال میں سے، جو کچھ تمہیں عطا کرتا ہے اسے حاصل کر لو اور اس کے ذریعے سے اپنے مال میں اضافہ کرو، اسے صدقہ کرو اور جو مال ایسا نہ ہو، تم اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگاؤ۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 7163، صحيح ابن حبان: 3405، وصححه ابن خزيمة: 2365، وأحمد: 17/1، وعبدالرزاق فى المصنفه: 20045»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:21
فائدہ: اس حدیث میں دینی امور کی ملازمت میں اجرت لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ انسان کو لالچی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے مالوں پر نظر رکھے اور ہر موقع پر ان سے مانگتا پھرے، اور اپنی تنخواہ کو بڑھانے کا مطالبہ ہی کرتا پھرے۔ اس طرز عمل سے انسان لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے، اور اپنا مقام کھو بیٹھتا ہے، کیونکہ رزق جو مقدر میں لکھا ہے، اس سے نہ زیادہ ملے گا اور نہ کم۔ اللہ تعالی ہمیں لالچی نگاہوں سے محفوظ رکھے، آمین اس کے برعکس بعض لوگوں کی صورت حال غنا کی ہوتی ہے، ان لوگ کو دینا بھی چاہیں تو وہ لینے سے انکار کر دیتے ہیں، یہ بھی صورت حال محل نظر ہے، بلکہ بغیر مطالبے کے کوئی دے تو اس کو لے لینا چاہیے، جب انسان کے پاس مال و دولت وافر ہو گی تو لوگوں پر خرچ کرے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ رزق کی فراونی کرے تو دین کی نشر و اشاعت میں پیسہ صرف کرنا چاہیے، جس طرح مجدد العصر علامہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے کیا، اور ہمارے زمانے میں بھی بعض لوگ کر رہے ہیں۔ فجزاهم اللہ خیرا
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 21