(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: حدثنا ابن ابي خالد ، عن ابي بكر بن ابي زهير ، اظنه قال ابو بكر : يا رسول الله، كيف الصلاح بعد هذه الآية؟ قال:" يرحمك الله يا ابا بكر، الست تمرض؟ الست تحزن؟ الست تصيبك اللاواء؟" قال: بلى، قال:" فإن ذاك بذاك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ ، أظنه قَالَ أَبُو بَكْرٍ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الصَّلَاحُ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ؟ قَالَ:" يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْتَ تَمْرَضُ؟ أَلَسْتَ تَحْزَنُ؟ أَلَسْتَ تُصِيبُكَ اللَّأْوَاءُ؟" قَالَ: بَلَى، قَالَ:" فَإِنَّ ذَاكَ بِذَاكَ".
سیدنا ابوبکر صدیق عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس آیت کے بعد کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے «لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ» کہ ”تمہاری خواہشات اور اہل کتاب کی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں، جو برا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا . . .“ تو کیا ہمیں ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ابوبکر! اللہ آپ پر رحم فرمائے، کیا آپ بیمار نہیں ہوتے؟ کیا آپ پریشان نہیں ہوتے؟ کیا آپ غمگین نہیں ہوتے؟ کیا آپ رنج و تکلیف کا شکار نہیں ہوتے؟“ عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا: ”یہی تو بدلہ ہے۔“