(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني نافع ، قال: جمع ابن عمر بين الصلاتين مرة واحدة جاءه خبر عن صفية بنت ابي عبيد انها وجعة، فارتحل بعد ان صلى العصر، وترك الاثقال، ثم اسرع السير، فسار حتى حانت صلاة المغرب، فكلمه رجل من اصحابه، فقال: الصلاة، فلم يرجع إليه شيئا، ثم كلمه آخر، فلم يرجع إليه شيئا، ثم كلمه آخر، فقال: إني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ," إذا استعجل به السير، اخر هذه الصلاة، حتى يجمع بين الصلاتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، قَالَ: جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مَرَّةً وَاحِدَةً جَاءَهُ خَبَرٌ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ أَنَّهَا وَجِعَةٌ، فَارْتَحَلَ بَعْدَ أَنْ صَلَّى الْعَصْرَ، وَتَرَكَ الْأَثْقَالَ، ثُمَّ أَسْرَعَ السَّيْرَ، فَسَارَ حَتَّى حَانَتْ صَلَاةُ الْمَغْرِبِ، فَكَلَّمَهُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: الصَّلَاةَ، فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيْهِ شَيْئًا، ثُمَّ كَلَّمَهُ آخَرُ، فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيْهِ شَيْئًا، ثُمَّ كَلَّمَهُ آخَرُ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ," إِذَا اسْتَعْجَلَ بِهِ السَّيْرُ، أَخَّرَ هَذِهِ الصَّلَاةَ، حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ".
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے صرف ایک مرتبہ دو نمازوں کو اکٹھا کیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ انہیں صفیہ بنت ابی عبید کی بیماری کی خبر معلوم ہوئی وہ عصر کی نماز کے بعد روانہ ہوئے اور سامان وہیں چھوڑ دیا اور اپنی رفتار تیز کر دی دوران سفر نماز نماز مغرب کا وقت آگیا ان کے کسی ساتھی نے انہیں متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے لیکن انہوں نے اسے کوئی جواب نہیں دیادوسرے نے کہا انہوں نے اسے بھی کوئی جواب نہ دیا پھر تیسرے نے کے کہنے پر بھی جواب نہ دیاچوتھی مرتبہ انہوں نے فرمایا: ”کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چلنے میں جلدی ہوتی تھی تو اس نماز کو مؤخر کر کے دو نمازیں اکٹھی پڑھ لیتے تھے۔