(حديث مرفوع) حدثنا ابو نوح ، اخبرنا ليث ، عن يزيد بن عبد الله بن اسامة بن الهاد ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، ان اعرابيا مر عليه وهم في طريق الحج، فقال له ابن عمر: الست فلان بن فلان؟ قال: بلى، قال: فانطلق إلى حمار كان يستريح عليه إذا مل راحلته، وعمامة كان يشد بها راسه، فدفعها إلى الاعرابي، فلما انطلق، قال له بعضنا: انطلقت إلى حمارك الذي كنت تستريح عليه، وعمامتك التي كنت تشد بها راسك، فاعطيتهما هذا الاعرابي، وإنما كان هذا يرضى بدرهم! قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن ابر البر، صلة المرء اهل ود ابيه بعد ان يولي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ ، أَخْبَرَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا مَرَّ عَلَيْهِ وَهُمْ فِي طَرِيقِ الْحَجِّ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: أَلَسْتَ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَانْطَلَقَ إِلَى حِمَارٍ كَانَ يَسْتَرِيحُ عَلَيْهِ إِذَا مَلَّ رَاحِلَتَهُ، وَعِمَامَةٍ كَانَ يَشُدُّ بِهَا رَأْسَهُ، فَدَفَعَهَا إِلَى الْأَعْرَابِيِّ، فَلَمَّا انْطَلَقَ، قَالَ لَهُ بَعْضُنَا: انْطَلَقْتَ إِلَى حِمَارِكَ الَّذِي كُنْتَ تَسْتَرِيحُ عَلَيْهِ، وَعِمَامَتِكَ الَّتِي كُنْتَ تَشُدُّ بِهَا رَأْسَكَ، فَأَعْطَيْتَهُمَا هَذَا الْأَعْرَابِيَّ، وَإِنَّمَا كَانَ هَذَا يَرْضَى بِدِرْهَمٍ! قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ، صِلَةُ الْمَرْءِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ بَعْدَ أَنْ يُوَلِّيَ".
عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرا، وہ حج کے لئے جا رہے تھے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس دیہاتی سے پوچھا کہ کیا آپ فلاں بن فلاں نہیں ہیں؟ اس نے کہا کیوں نہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے گدھے کے پاس آئے، جب آپ اپنی سواری سے اکتا جاتے تو اس پر آرام کرتے تھے اور اپناعمامہ لیا جس سے وہ اپنے سر پر پگڑی باندھا کرتے تھے اور یہ دونوں چیزیں اس دیہاتی کو دے دیں، جب وہ چلا گیا تو ہم میں سے کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اپنا گدھا جس پر آپ آرام کیا کرتے تھے اور وہ عمامہ جسے آپ اپنے سر پر باندھتے تھے، اس دیہاتی کو دے دیئے جب کہ وہ تو ایک درہم سے بھی خوش ہو جاتا؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے والد کے مرنے کے بعد اس کے دوستوں سے صلہ رحمی کرے۔