مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
28. مسنَد عبد الله بن مسعود رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
حدیث نمبر: 4400
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، قال: سمعت حديجا اخا زهير بن معاوية، عن ابي إسحاق ، عن عبد الله بن عتبة ، عن ابن مسعود ، قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى النجاشي، ونحن نحو من ثمانين رجلا، فيهم عبد الله بن مسعود، وجعفر، وعبد الله بن عرفطة، وعثمان بن مظعون، وابو موسى، فاتوا النجاشي، وبعثت قريش عمرو بن العاص، وعمارة بن الوليد بهدية، فلما دخلا على النجاشي سجدا له، ثم ابتدراه عن يمينه وعن شماله، ثم قالا له: إن نفرا من بني عمنا نزلوا ارضك، ورغبوا عنا وعن ملتنا، قال: فاين هم؟ قال: هم في ارضك، فابعث إليهم، فبعث إليهم، فقال جعفر: انا خطيبكم اليوم، فاتبعوه، فسلم ولم يسجد، فقالوا له: مالك لا تسجد للملك؟! قال: إنا لا نسجد إلا لله عز وجل. قال: وما ذلك؟ قال: إن الله عز وجل بعث إلينا رسوله صلى الله عليه وسلم،" وامرنا ان لا نسجد لاحد إلا لله عز وجل، وامرنا بالصلاة والزكاة، قال عمرو بن العاص: فإنهم يخالفونك في عيسى ابن مريم! قال: ما تقولون في عيسى ابن مريم وامه؟ قالوا: نقول كما قال الله عز وجل، هو كلمة الله وروحه، القاها إلى العذراء البتول التي لم يمسها بشر، ولم يفرضها ولد". قال: فرفع عودا من الارض، ثم قال: يا معشر الحبشة والقسيسين والرهبان، والله ما يزيدون على الذي نقول فيه ما يسوى هذا، مرحبا بكم، وبمن جئتم من عنده، اشهد انه رسول الله، فإنه الذي نجد في الإنجيل، وإنه الرسول الذي بشر به عيسى ابن مريم، انزلوا حيث شئتم، والله لولا ما انا فيه من الملك لاتيته حتى اكون انا احمل نعليه، واوضؤه. وامر بهدية الآخرين فردت إليهما، ثم تعجل عبد الله بن مسعود حتى ادرك بدرا، وزعم ان النبي صلى الله عليه وسلم استغفر له حين بلغه موته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: سَمِعْتُ حُدَيْجًا أَخَا زُهَيْرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّجَاشِيِّ، وَنَحْنُ نَحْوٌ مِنْ ثَمَانِينَ رَجُلًا، فِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَجَعْفَرٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُرْفُطَةَ، وَعُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، وَأَبُو مُوسَى، فَأَتَوْا النَّجَاشِيَّ، وَبَعَثَتْ قُرَيْشٌ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، وَعُمَارَةَ بْنَ الْوَلِيدِ بِهَدِيَّةٍ، فَلَمَّا دَخَلَا عَلَى النَّجَاشِيِّ سَجَدَا لَهُ، ثُمَّ ابْتَدَرَاهُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَا لَهُ: إِنَّ نَفَرًا مِنْ بَنِي عَمِّنَا نَزَلُوا أَرْضَكَ، وَرَغِبُوا عَنَّا وَعَنْ مِلَّتِنَا، قَالَ: فَأَيْنَ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ فِي أَرْضِكَ، فَابْعَثْ إِلَيْهِمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: أَنَا خَطِيبُكُمْ الْيَوْمَ، فَاتَّبَعُوهُ، فَسَلَّمَ وَلَمْ يَسْجُدْ، فَقَالُوا لَهُ: مَالَكَ لَا تَسْجُدُ لِلْمَلِكِ؟! قَالَ: إِنَّا لَا نَسْجُدُ إِلَّا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: وَمَا ذَلكَ؟ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ إِلَيْنَا رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" وَأَمَرَنَا أَنْ لَا نَسْجُدَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَرَنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ: فَإِنَّهُمْ يُخَالِفُونَكَ فِي عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ! قَالَ: مَا تَقُولُونَ فِي عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأُمِّهِ؟ قَالُوا: نَقُولُ كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، هُوَ كَلِمَةُ اللَّهِ وَرُوحُهُ، أَلْقَاهَا إِلَى الْعَذْرَاءِ الْبَتُولِ الَّتِي لَمْ يَمَسَّهَا بَشَرٌ، وَلَمْ يَفْرِضْهَا وَلَدٌ". قَالَ: فَرَفَعَ عُودًا مِنَ الْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مَعْشَرَ الْحَبَشَةِ وَالْقِسِّيسِينَ وَالرُّهْبَانِ، وَاللَّهِ مَا يَزِيدُونَ عَلَى الَّذِي نَقُولُ فِيهِ مَا يَسْوَى هَذَا، مَرْحَبًا بِكُمْ، وَبِمَنْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِهِ، أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنَّهُ الَّذِي نَجِدُ فِي الْإِنْجِيلِ، وَإِنَّهُ الرَّسُولُ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، انْزِلُوا حَيْثُ شِئْتُمْ، وَاللَّهِ لَوْلَا مَا أَنَا فِيهِ مِنَ الْمُلْكِ لَأَتَيْتُهُ حَتَّى أَكُونَ أَنَا أَحْمِلُ نَعْلَيْهِ، وَأُوَضِّؤُهُ. وَأَمَرَ بِهَدِيَّةِ الْآخَرِينَ فَرُدَّتْ إِلَيْهِمَا، ثُمَّ تَعَجَّلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ حَتَّى أَدْرَكَ بَدْرًا، وَزَعَمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَغْفَرَ لَهُ حِينَ بَلَغَهُ مَوْتُهُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تقریبا اسی آدمیوں کو - جن میں سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا جعفر، سیدنا عبداللہ بن عفطہ، سیدنا عثمان بن مظعون اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے - نجاشی کے یہاں بھیج دیا، یہ لوگ نجاشی کے پاس پہنچے تو قریش نے بھی عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید کو تحائف دے کر بھیج دیا، انہوں نے نجاشی کے دربار میں داخل ہو کر اسے سجدہ کیا اور دائیں بائیں جلدی سے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہمارے بنوعم میں سے کچھ لوگ بھاگ کر آپ کے علاقے میں آ گئے ہیں، اور ہم سے اور ہماری ملت سے بےرغبتی ظاہر کرتے ہیں، نجاشی نے پوچھا: وہ لوگ کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ آپ کے علاقے میں ہیں، آپ انہیں اپنے پاس بلائیے، چنانچہ نجاشی نے انہیں بلا بھیجا، سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: آج کے دن تمہارا خطیب میں بنوں گا، وہ سب راضی ہو گئے۔ انہوں نے نجاشی کے یہاں پہنچ کر اسے سلام کیا لیکن سجدہ نہیں کیا، لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ بادشاہ سلامت کو سجدہ کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: ہم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے سامنے سجدہ نہیں کرتے، نجاشی نے پوچھا: کیا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف اپنا پیغمبر مبعوث فرمایا ہے، انہوں نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے سجدہ نہ کریں، نیز انہوں نے ہمیں زکوٰۃ اور نماز کا حکم دیا ہے۔ عمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بابت آپ کی مخالفت کرتے ہیں، نجاشی نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے بارے کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم وہی کہتے ہیں جو اللہ فرماتا ہے کہ وہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں جسے اللہ نے اس کنواری دوشیزہ کی طرف القاء فرمایا تھا جسے کسی انسان نے چھوا تھا اور نہ ہی ان کے یہاں اولاد ہوئی تھی، اس پر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا: اے گروہ حبشہ! پادریو! اور راہبو! واللہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اس تنکے سے بھی کوئی بات زیادہ نہیں کہتے، میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں اور اس شخص کو بھی جس کی طرف سے تم آئے ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور انجیل میں ہم ان ہی کا ذکر پاتے ہیں، اور یہ وہی پیغمبر ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی، تم جہاں چاہو رہ سکتے ہو، اگر امور سلطنت کا معاملہ نہ ہوتا تو واللہ! میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا، ان کے نعلین اٹھاتا اور انہیں وضو کراتا۔ پھر اس نے عمرو بن عاص اور عمارہ کا ہدیہ واپس لوٹا دینے کا حکم دیا جو انہیں لوٹا دیا گیا، اس کے بعد سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وہاں سے جلدی واپس آ گئے تھے اور انہوں نے غزوہ بدر میں شرکت کی تھی اور ان کا یہ کہنا تھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نجاشی کی موت کی اطلاع ملی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے استغفار کیا تھا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، حديج بن معاوية، قال أحمد فى «العلل» 5251: ليس لي بحديثه علم، وقال ابن معين : ليس بشيء، وقال البخاري : يتكلمون فى بعض حديثه، وقال ابن حبان فى «المجروحين» : منكر الحديث كثير الوهم على قلة روايته .


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.