(حديث مرفوع) حدثنا ابو قطن ، حدثنا يونس يعني ابن ابي إسحاق ، عن ابيه ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، قال: اشرف عثمان من القصر، وهو محصور، فقال: انشد بالله من شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حراء إذ اهتز الجبل، فركله بقدمه، ثم قال:" اسكن حراء، ليس عليك إلا نبي، او صديق، او شهيد"، وانا معه؟ فانتشد له رجال. قال: انشد بالله من شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بيعة الرضوان، إذ بعثني إلى المشركين، إلى اهل مكة، قال:" هذه يدي، وهذه يد عثمان"، فبايع لي؟ فانتشد له رجال. قال: انشد بالله من شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من يوسع لنا بهذا البيت في المسجد، ببيت له في الجنة؟"، فابتعته من مالي فوسعت به المسجد؟ فانتشد له رجال. قال: وانشد بالله من شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم جيش العسرة، قال:" من ينفق اليوم نفقة متقبلة؟" فجهزت نصف الجيش من مالي؟ قال: فانتشد له رجال. وانشد بالله من شهد رومة يباع ماؤها ابن السبيل، فابتعتها من مالي، فابحتها لابن السبيل؟ قال: فانتشد له رجال.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: أَشْرَفَ عُثْمَانُ مِنَ الْقَصْرِ، وَهُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حِرَاءٍ إِذْ اهْتَزَّ الْجَبَلُ، فَرَكَلَهُ بِقَدَمِهِ، ثُمَّ قَالَ:" اسْكُنْ حِرَاءُ، لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ"، وَأَنَا مَعَهُ؟ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. قَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ، إِذْ بَعَثَنِي إِلَى الْمُشْرِكِينَ، إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، قَالَ:" هَذِهِ يَدِي، وَهَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ"، فَبَايَعَ لِي؟ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. قَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ يُوَسِّعُ لَنَا بِهَذَا الْبَيْتِ فِي الْمَسْجِدِ، بِبَيْتٍ لَهُ فِي الْجَنَّةِ؟"، فَابْتَعْتُهُ مِنْ مَالِي فَوَسَّعْتُ بِهِ الْمَسْجِدَ؟ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. قَالَ: وَأَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جَيْشِ الْعُسْرَةِ، قَالَ:" مَنْ يُنْفِقُ الْيَوْمَ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً؟" فَجَهَّزْتُ نِصْفَ الْجَيْشِ مِنْ مَالِي؟ قَالَ: فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. وَأَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رُومَةَ يُبَاعُ مَاؤُهَا ابْنَ السَّبِيلِ، فَابْتَعْتُهَا مِنْ مَالِي، فَأَبَحْتُهَا لِابْنِ السَّبِيلِ؟ قَالَ: فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جن دنوں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے، ایک مرتبہ انہوں نے اپنے گھر کے بالاخانے سے جھانک کر فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر ”یوم حراء“ کے حوالے سے پوچھتا ہوں کہ جب جبل حراء ہلنے لگا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا پاؤں مبارک مار کر فرمایا: ”اے جبل حراء! ٹھہر جا، کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور ایک شہید کے کوئی نہیں ہے“، اس موقع پر میں موجود تھا؟ اس پر کئی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر ”بیعت رضوان“ کے حوالے سے پوچھتا ہوں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشرکین مکہ کی طرف بھیجا تھا اور اپنے ہاتھ کو میرا ہاتھ قرار دے کر میری طرف سے میرے خون کا انتقام لینے پر بیعت کی تھی؟ اس پر کئی لوگوں نے پھر ان کی تائید کی۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: ”جنت میں مکان کے عوض ہماری اس مسجد کو کون وسیع کرے گا؟“ تو میں نے اپنے مال سے جگہ خرید کر اس مسجد کو وسیع نہیں کیا تھا؟ اس پر بھی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کا واسطہ دے کر ”جیش عسرۃ“(جو غزوہ تبوک کا دوسرا نام ہے) کے حوالے سے پوچھتا ہوں جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”آج کون خرچ کرے گا؟ اس کا دیا ہوا مقبول ہو گا“، کیا میں نے اپنے مال سے نصف لشکر کو سامان مہیا نہیں کیا تھا؟ اس پر بھی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کا واسطہ دے کر ”بیر رومہ“ کے حوالے سے پوچھتا ہوں جن کا پانی مسافر تک کو بیچا جاتا تھا، میں نے اپنے مال سے خرید کر مسافروں کے لئے بھی وقف کر دیا، کیا ایسا ہے یا نہیں؟ لوگوں نے اس پر بھی ان کی تائید کی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سلمة بن عبدالرحمن مختلف فى سماعه من عثمان، لكن صحح أحمد شاكر سماعه منه