(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا حماد ، عن حميد ، عن بكر بن عبد الله ان اعرابيا، قال: لابن عباس ما شان آل معاوية يسقون الماء والعسل، وآل فلان يسقون اللبن، وانتم تسقون النبيذ؟ امن بخل بكم، او حاجة؟ فقال ابن عباس ما بنا بخل، ولا حاجة، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءنا، ورديفه اسامة بن زيد، فاستسقى، فسقيناه من هذا يعني نبيذ السقاية فشرب منه، وقال:" احسنتم، هكذا فاصنعوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ أَعْرَابِيًّا، قَالَ: لِابْنِ عَبَّاسٍ مَا شَأْنُ آلِ مُعَاوِيَةَ يَسْقُونَ الْمَاءَ وَالْعَسَلَ، وَآلُ فُلَانٍ يَسْقُونَ اللَّبَنَ، وَأَنْتُمْ تَسْقُونَ النَّبِيذَ؟ أَمِنْ بُخْلٍ بِكُمْ، أَوْ حَاجَةٍ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مَا بِنَا بُخْلٌ، وَلَا حَاجَةٌ، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَنَا، وَرَدِيفُهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَاسْتَسْقَى، فَسَقَيْنَاهُ مِنْ هَذَا يَعْنِي نَبِيذَ السِّقَايَةِ فَشَرِبَ مِنْهُ، وَقَالَ:" أَحْسَنْتُمْ، هَكَذَا فَاصْنَعُوا".
ایک دیہاتی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آل معاویہ لوگوں کو پانی اور شہد پلاتی ہے، آل فلاں دودھ پلاتی ہے اور آپ لوگ نبیذ پلاتے ہیں؟ کسی بخل کی وجہ سے یا ضرورت مندی کی بناء پر؟ انہوں نے فرمایا: نہ ہم کنجوس ہیں اور نہ ہی ضرورت مند، بات دراصل یہ ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ان کے پیچھے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پینے کے لئے پانی طلب کیا، ہم نے آپ کو نبیذ پلائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا اور پس خوردہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو دے دیا، اور فرمایا: ”تم نے اچھا کیا اور خوب کیا، اسی طرح کیا کرو۔“