حدثنا يحيى بن ابي بكير , قال: حدثنا إسرائيل ، عن عثمان بن سعد ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، قال: حدثتني خالتي فاطمة بنت ابي حبيش ، قالت: اتيت عائشة، فقلت لها: يا ام المؤمنين، قد خشيت ان لا يكون لي حظ في الإسلام، وان اكون من اهل النار، امكث ما شاء الله من يوم استحاض، فلا اصلي لله عز وجل صلاة، قالت: اجلسي حتى يجيء النبي صلى الله عليه وسلم، فلما جاء النبي صلى الله عليه وسلم , قالت: يا رسول الله، هذه فاطمة بنت ابي حبيش تخشى ان لا يكون لها حظ في الإسلام، وان تكون من اهل النار، تمكث ما شاء الله من يوم تستحاض، فلا تصلي لله عز وجل صلاة، فقال: " مري فاطمة بنت ابي حبيش، فلتمسك كل شهر عدد ايام اقرائها، ثم تغتسل، وتحتشي، وتستثفر، وتنظف، ثم تطهر عند كل صلاة، وتصلي، فإنما ذلك ركضة من الشيطان، او عرق انقطع، او داء عرض لها" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ , قَالَ: حدثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي خَالَتِي فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ ، قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ، فَقُلْتُ لَهَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، قَدْ خَشِيتُ أَنْ لَا يَكُونَ لِي حَظٌّ فِي الْإِسْلَامِ، وَأَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَمْكُثُ مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ يَوْمِ أُسْتَحَاضُ، فَلَا أُصَلِّي لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صَلَاةً، قَالَتْ: اجْلِسِي حَتَّى يَجِيءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ تَخْشَى أَنْ لَا يَكُونَ لَهَا حَظٌّ فِي الْإِسْلَامِ، وَأَنْ تَكُونَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، تَمْكُثُ مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ يَوْمِ تُسْتَحَاضُ، فَلَا تُصَلِّي لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صَلَاةً، فَقَالَ: " مُرِي فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ، فَلْتُمْسِكْ كُلَّ شَهْرٍ عَدَدَ أَيَّامِ أَقْرَائِهَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ، وَتَحْتَشِي، وَتَسْتَثْفِرُ، وَتَنَظَّفُ، ثُمَّ تَطَهَّرُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ، وَتُصَلِّي، فَإِنَّمَا ذَلِكَ رَكْضَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، أَوْ عِرْقٌ انْقَطَعَ، أَوْ دَاءٌ عَرَضَ لَهَا" .
حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور ان سے کہا کہ اے ام المومنین! مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام میں میرا کوئی حصہ نہ رہے اور میں اہل جہنم یں سے ہو جاؤں، میں ”جب تک اللہ چاہتا ہے“، ایام سے رہتی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی نماز نہیں پڑھ پاتی، انہوں نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، تاآنکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے، تو انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ فاطمہ بنت ابی حبیش ہیں، انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں رہے گا اور یہ اہل جہنم میں سے ہو جائیں گی، کیونکہ یہ اتنے دن تک ایام سے رہتی ہیں جب تک اللہ کو منظور ہوتا ہے اور یہ اللہ کے لئے کوئی نماز نہیں پڑھ پاتیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم فاطمہ بنت ابی حبیش سے کہہ دو کہ ہر مہینے میں (ایام حیض) کے شمار کے مطابق رکی رہا کرے، پھر غسل کر کے اپنے جسم پر اچھی طرح کپڑا لپیٹ لیا کرے اور ہر نماز کے وقت طہارت حاصل کر کے نماز پڑھ لیا کرے، یہ شیطان کا ایک کچوکا ہے یا ایک رگ ہے جو کٹ گئی ہے یا ایک بیماری ہے جو انہیں لاحق ہو گئی ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عثمان بن سعد، ثم إنه قد اختلف فى إسناده