حدثنا سفيان , عن ابن ابي حسين , سمع شهرا , يقول: سمعت اسماء بنت يزيد إحدى نساء بني عبد الاشهل , تقول: مر بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن في نسوة , فسلم علينا , وقال:" إياكن وكفر المنعمين" , فقلنا: يا رسول الله , وما كفر المنعمين؟ قال: " لعل إحداكن ان تطول ايمتها بين ابويها وتعنس , فيرزقها الله عز وجل زوجا , ويرزقها منه مالا وولدا , فتغضب الغضبة , فراحت تقول: ما رايت منه يوما خيرا قط" , وقال مرة:" خيرا قط" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ , سَمِعَ شَهْرًا , يَقُولُ: سَمِعْتُ أَسْمَاءَ بِنْتَ يَزِيدَ إِحْدَى نِسَاءِ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ , تَقُولُ: مَرَّ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي نِسْوَةٍ , فَسَلَّمَ عَلَيْنَا , وَقَالَ:" إِيَّاكُنَّ وَكُفْرَ الْمُنَعَّمِينَ" , فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَمَا كُفْرُ الْمُنَعَّمِينَ؟ قَالَ: " لَعَلَّ إِحْدَاكُنَّ أَنْ تَطُولَ أَيْمَتُهَا بَيْنَ أَبَوَيْهَا وَتَعْنُسَ , فَيَرْزُقَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ زَوْجًا , وَيَرْزُقَهَا مِنْهُ مَالًا وَوَلَدًا , فَتَغْضَبَ الْغَضْبَةَ , فَرَاحَتْ تَقُولُ: مَا رَأَيْتُ مِنْهُ يَوْمًا خَيْرًا قَطُّ" , وَقَالَ مَرَّةً:" خَيْرًا قَطُّ" .
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا ”جن کا تعلق بنی عبدالاشہل سے ہے“ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے، ہم کچھ عورتوں کے ساتھ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا: ”احسان کرنے والوں کی ناشکری سے اپنے آپ کو بچاؤ“، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! احسان کرنے والوں کی ناشکری سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی عورت اپنے ماں باپ کے یہاں طویل عرصے تک رشتے کے انتظار میں بیٹھی رہے، پھر اللہ اسے شوہر عطاء فرما دے اور اس سے اسے مال و دولت بھی عطاء فرما دے اور وہ پھر کسی دن غصے میں آکر یوں کہہ دے کہ میں نے تو تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، وقد توبع