حدثنا هاشم بن القاسم ، قال: حدثنا ابو جعفر يعني الرازي ، عن حصين ، عن شقيق بن سلمة ، عن مسروق ، عن ام رومان وهي ام عائشة ، قالت: كنت انا وعائشة قاعدة، فدخلت امراة من الانصار، فقالت: فعل الله بفلان وفعل تعني ابنها قالت: فقلت لها: وما ذلك؟ قالت: ابني كان فيمن حدث الحديث , قالت: فقلت لها: وما الحديث؟ قالت: كذا وكذا، فقالت عائشة: اسمع بذلك ابو بكر؟ قالت: نعم، قالت: اسمع بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: نعم، فوقعت او سقطت مغشيا عليها، فافاقت حمى بنافض، فالقيت عليها الثياب، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ما لهذه؟" قالت: فقلت: يا رسول الله، اخذتها حمى بنافض، قال:" لعله من الحديث الذي تحدث به؟" , قالت , قلت: نعم , يا رسول الله، فرفعت عائشة راسها، وقالت: إن قلت، لم تعذروني، وإن حلفت، لم تصدقوني، ومثلي ومثلكم، كمثل يعقوب وبنيه , حين قال: فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون سورة يوسف آية 18 , فلما نزل عذرها، اتاها النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرها بذلك، فقالت: بحمد الله، لا بحمدك او قالت: ولا بحمد احد .حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ يَعْنِي الرَّازِيَّ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ أُمِّ رُومَانَ وَهِيَ أُمُّ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كُنْتُ أَنَا وَعَائِشَةُ قَاعِدَةٌ، فَدَخَلَتْ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَتْ: فَعَلَ اللَّهُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ تَعْنِي ابْنَهَا قَالَتْ: فَقُلْتُ لَهَا: وَمَا ذَلِكَ؟ قَالَتْ: ابْنِي كَانَ فِيمَنْ حَدَّثَ الْحَدِيثَ , قَالَتْ: فَقُلْتُ لَهَا: وَمَا الْحَدِيثُ؟ قَالَتْ: كَذَا وَكَذَا، فقالت عائشة: أسمع بذلك أبو بكر؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَتْ: أَسَمِعَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَوَقَعَتْ أَوْ سَقَطَتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا، فَأَفَاقَتْ حُمَّى بِنَافِضٍ، فَأَلْقَيْتُ عَلَيْهَا الثِّيَابَ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَا لِهَذِهِ؟" قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخَذَتْهَا حُمَّى بِنَافِضٍ، قَالَ:" لَعَلَّهُ مِنَ الْحَدِيثِ الَّذِي تُحُدِّثَ بِهِ؟" , قَالَتْ , قُلْتُ: نَعَمْ , يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَرَفَعَتْ عَائِشَةُ رَأْسَهَا، وَقَالَتْ: إِنْ قُلْتُ، لَمْ تَعْذِرُونِي، وَإِنْ حَلَفْتُ، لَمْ تُصَدِّقُونِي، وَمَثَلِي وَمَثَلُكُمْ، كَمَثَلِ يَعْقُوبَ وَبَنِيهِ , حِينَ قَالَ: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18 , فَلَمَّا نَزَلَ عُذْرُهَا، أَتَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهَا بِذَلِكَ، فَقَالَتْ: بِحَمْدِ اللَّهِ، لَا بِحَمْدِكَ أَوْ قَالَتْ: وَلَا بِحَمْدِ أَحَدٍ .
حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ”جو کہ حضرت عائشہ کی والدہ تھیں“ کہتی ہیں کہ میں اور عائشہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک انصاری عورت آکر کہنے لگی، اللہ فلاں کے ساتھ ”مراد اس کا بیٹا تھا“ ایسا کرے، میں نے اس سے وجہ پوچھی، تو وہ کہنے لگی کہ میرا بیٹا بھی چہ میگوئیاں کرنے والوں میں شامل ہے، میں نے پوچھا: کیسی چہ میگوئیاں؟ اس نے ساری تفصیل بتا دی، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی یہ باتیں سنی ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، انہوں نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سنی ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں! غش کھا کر گر پڑیں اور انہیں نہایت تیز بخارچڑھ گیا، میں نے انہیں چادریں اوڑھا دیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے، تو پوچھا کہ اسے کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اسے نہایت تیز بخار چڑھ گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید ان باتوں کی وجہ سے جو جاری ہیں“، میں نے عرض کیا: جی یا رسول اللہ! اسی دوران عائشہ رضی اللہ عنہا نے سر اٹھایا اور کہا: اگر میں آپ کے سامنے اپنے آپ کو عیب سے پاک کہوں گی تو آپ کو یقین نہیں آ سکتا اور اگر میں ناکردہ گناہ کا آپ کے سامنے اقرار کر دوں (اور اللہ گواہ ہے کہ میں اس سے پاک ہوں) تو آپ مجھ کو سچا جان لیں گے، اللہ کی قسم! مجھے اپنی اور آپ کی مثال سوائے حضرت یعقوب علیہ السلام کے کوئی نہیں ملتی انہوں نے کہا تھا، «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون» جب ان کا عذر نازل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور انہیں اس کی خبر دی، تو وہ کہنے لگیں کہ اس پر میں صرف اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کسی اور کا نہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3388، أبو جعفر الرازي مختلف فيه، وقد توبع