حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد ، حدثنا علي بن زيد ، عن اليشكري ، عن حذيفة ، قال: قلت: يا رسول الله، هل بعد هذا الخير شر كما كان قبله شر؟ قال:" يا حذيفة، اقرا كتاب الله واعمل بما فيه"، فاعرض عني، فاعدت عليه ثلاث مرات، وعلمت انه إن كان خيرا اتبعته، وإن كان شرا اجتنبته، فقلت: هل بعد هذا الخير من شر؟ قال:" نعم، فتنة عمياء عماء صماء، ودعاة ضلالة على ابواب جهنم، من اجابهم قذفوه فيها" .حَدَّثَنَا عَبدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بنُ زَيْدٍ ، عَنْ الْيَشْكُرِيِّ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ بعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ كَمَا كَانَ قَبلَهُ شَرٌّ؟ قَالَ:" يَا حُذَيْفَةُ، اقْرَأْ كِتَاب اللَّهِ وَاعْمَلْ بمَا فِيهِ"، فَأَعْرَضَ عَنِّي، فَأَعَدْتُ عَلَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَعَلِمْتُ أَنَّهُ إِنْ كَانَ خَيْرًا اتَّبعْتُهُ، وَإِنْ كَانَ شَرًّا اجْتَنَبتُهُ، فَقُلْتُ: هَلْ بعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ:" نَعَمْ، فِتْنَةٌ عَمْيَاءُ عَمَّاءُ صَمَّاءُ، وَدُعَاةُ ضَلَالَةٍ عَلَى أَبوَاب جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابهُمْ قَذَفُوهُ فِيهَا" .
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حذیفہ! کتاب اللہ کو سیکھو اور اس کے احکام کی پیروی کرو (تین مرتبہ فرمایا میں نے پھر اپنا سوال دہرایا نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتنہ اور شر ہوگا میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا حذیفہ رضی اللہ عنہ! کتاب اللہ کو سیکھو اور اس کے احکام کی پر وی کرو میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دھوئیں پر صلح قائم ہوگی اور گندگی پر اتفاق ہوگا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! دھوئیں پر صلح قائم ہونے سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ اس صلح پر دل سے راضی نہیں ہوں گے۔
پھر میرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان وہی سوال جواب ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ایسا فتنہ آئے گا جو اندھا بہرا کر دے گا اس پر جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے لوگ مقرر ہوں گے جو شخص ان کی دعوت کو قبول کرلے گا وہ اسے جہنم میں گرا دیں گے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف من أجل على بن زيد، وقد توبع