حدثنا ابو النضر ، حدثنا شيبان ، عن عاصم ، عن زر بن حبيش ، قال: اتيت على حذيفة بن اليمان ، وهو يحدث عن ليلة اسري بمحمد صلى الله عليه وسلم، وهو يقول: " فانطلقت او انطلقنا حتى اتينا على بيت المقدس"، فلم يدخلاه، قال: قلت: بل دخله رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلتئذ وصلى فيه، قال: ما اسمك يا اصلع؟ فإني اعرف وجهك ولا ادري ما اسمك! قال: قلت: انا زر بن حبيش، قال: فما علمك بان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى فيه ليلتئذ؟ قال: قلت: القرآن يخبرني بذلك، قال: من تكلم بالقرآن، فلج، اقرا، قال: فقرات: سبحان الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام سورة الإسراء آية 1، قال: فلم اجده صلى فيه، قال: يا اصلع هل تجد صلى فيه؟ قال: قلت: لا، قال: والله ما صلى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلتئذ، لو صلى فيه لكتب عليكم صلاة فيه، كما كتب عليكم صلاة في البيت العتيق، والله ما زايلا البراق حتى فتحت لهما ابواب السماء، فرايا الجنة والنار ووعد الآخرة اجمع، ثم عادا عودهما على بدئهما، قال: ثم ضحك حتى رايت نواجذه، قال: ويحدثون انه لربطه ليفر منه؟! وإنما سخره له عالم الغيب والشهادة، قال: قلت: ابا عبد الله، اي دابة البراق؟ قال: دابة ابيض طويل، هكذا خطوه مد البصر .حَدَّثَنَا أَبو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا شَيْبانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرِّ بنِ حُبيْشٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ عَلَى حُذَيْفَةَ بنِ الْيَمَانِ ، وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: " فَانْطَلَقْتُ أَوْ انْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى بيْتِ الْمَقْدِسِ"، فَلَمْ يَدْخُلَاهُ، قَالَ: قُلْتُ: بلْ دَخَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ وَصَلَّى فِيهِ، قَالَ: مَا اسْمُكَ يَا أَصْلَعُ؟ فَإِنِّي أَعْرِفُ وَجْهَكَ وَلَا أَدْرِي مَا اسْمُكَ! قَالَ: قُلْتُ: أَنَا زِرُّ بنُ حُبيْشٍ، قَالَ: فَمَا عِلْمُكَ بأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِيهِ لَيْلَتَئِذٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: الْقُرْآنُ يُخْبرُنِي بذَلِكَ، قَالَ: مَنْ تَكَلَّمَ بالْقُرْآنِ، فَلَجَ، اقْرَأْ، قَالَ: فَقَرَأْتُ: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة الإسراء آية 1، قَالَ: فَلَمْ أَجِدْهُ صَلَّى فِيهِ، قَالَ: يَا أَصْلَعُ هَلْ تَجِدُ صَلَّى فِيهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: وَاللَّهِ مَا صَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ، لَوْ صَلَّى فِيهِ لَكُتِب عَلَيْكُمْ صَلَاةٌ فِيهِ، كَمَا كُتِب عَلَيْكُمْ صَلَاةٌ فِي الْبيْتِ الْعَتِيقِ، وَاللَّهِ مَا زَايَلَا الْبرَاقَ حَتَّى فُتِحَتْ لَهُمَا أَبوَاب السَّمَاءِ، فَرَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ وَوَعْدَ الْآخِرَةِ أَجْمَعَ، ثُمَّ عَادَا عَوْدَهُمَا عَلَى بدْئِهِمَا، قَالَ: ثُمَّ ضَحِكَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ، قَالَ: وَيُحَدِّثُونَ أَنَّهُ لَرَبطَهُ لِيَفِرَّ مِنْهُ؟! وَإِنَّمَا سَخَّرَهُ لَهُ عَالِمُ الْغَيْب وَالشَّهَادَةِ، قَالَ: قُلْتُ: أَبا عَبدِ اللَّهِ، أَيُّ دَابةٍ الْبرَاقُ؟ قَالَ: دَابةٌ أَبيَضُ طَوِيلٌ، هَكَذَا خَطْوُهُ مَدُّ الْبصَرِ .
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ شب معراج کا واقعہ بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ذکر کرنے لگے کہ پھر ہم وہاں سے چل کر بیت المقدس پہنچے لیکن بیت المقدس میں داخل نہیں ہوئے " میں نے کہا کہ اس رات تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس میں داخل بھی ہوئے تھے اور وہاں پر نماز پھی پڑھی تھی یہ سن کر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے گنجے! تمہارا کیا نام ہے؟ میں تمہیں چہرے سے پہنچاتا ہوں لیکن نام یاد نہیں ہے میں نے عرض کیا کہ میرا نام زر بن حبیش ہے انہوں نے فرمایا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اس رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تھی؟ میں نے کہا کہ قرآن بتاتا ہے انہوں نے فرمایا کہ قرآن سے بات کرنے والا کامیاب ہوتا ہے تم وہ آیت پڑھ کر سناؤ اب جو میں نے " سبحان الذی اسری بعبدہ " پڑھی تو اس میں یہ کہیں نہ ملا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات بیت المقدس میں نماز بھی پڑھی تھی، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے ارے کنجے! کیا تمہیں اس میں نماز پڑھنے کا ذکر ملتا ہے؟ میں نے کہا نہیں انہوں نے فرمایا بخدا! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات بیت المقدس میں نماز نہیں پڑھی تھی اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس میں نماز پڑھ لیتے تو تم پر بھی وہاں نماز پڑھنا فرض ہوجاتا جیسے بیت اللہ میں ہوا بخدا! وہ دونوں براق سے جدا نہیں ہوئے تاآنکہ ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے۔
پھر ان دونوں نے جنت اور جہنم کو دیکھا اور آخرت کے سارے وعدے دیکھے پھر وہ دونوں اسی طرح واپس آگئے جیسے گئے تھے پھر وہ ہنسنے لگے یہاں تک کہ ان کے دندان مبارک میں نے دیکھے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے براق کو باندھ دیا تھا تاکہ وہ بھاگ نہ جائے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو سارا عالم غیب وشہود ان کے تابع کردیا تھا میں نے پوچھا اے ابو عبداللہ! براق کس قسم کا جانور تھا؟ فرمایا سفید رنگ کا ایک لمباجانور تھا جس کا قدم تا حدنگاہ پڑتا تھا۔