حدثنا يزيد ، اخبرنا همام ، عن قتادة ، عن سعيد بن ابي الحسن ، عن عبد الله بن صامت ، قال: كنت مع ابي ذر وقد خرج عطاؤه ومعه جارية له، فجعلت تقضي حوائجه، وقال: مرة نقضي، قال: ففضل معه فضل، قال: احسبه، قال: سبع، قال: فامرها ان تشتري بها فلوسا، قلت: يا ابا ذر، لو ادخرته للحاجة تنوبك، وللضيف ياتيك! فقال: إن خليلي عهد إلي ان " ايما ذهب او فضة اوكي عليه، فهو جمر على صاحبه يوم القيامة حتى يفرغه إفراغا في سبيل الله" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَامِتٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي ذَرٍّ وَقَدْ خَرَجَ عَطَاؤُهُ وَمَعَهُ جَارِيَةٌ لَهُ، فَجَعَلَتْ تَقْضِي حَوَائِجَهُ، وَقَالَ: مَرَّةً نَقْضِي، قَالَ: فَفَضَلَ مَعَهُ فَضْلٌ، قَالَ: أَحْسِبُهُ، قَالَ: سَبْعٌ، قَالَ: فَأَمَرَهَا أَنْ تَشْتَرِيَ بِهَا فُلُوسًا، قُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، لَوْ ادَّخَرْتَهُ لِلْحَاجَةِ تَنُوبُكَ، وَلِلضَّيْفِ يَأْتِيكَ! فَقَالَ: إِنَّ خَلِيلِي عَهِدَ إِلَيَّ أَنْ " أَيُّمَا ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ أُوكِيَ عَلَيْهِ، فَهُوَ جَمْرٌ عَلَى صَاحِبِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُفْرِغَهُ إِفْرَاغًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ" .
عبداللہ بن صامت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ ان کا وظیفہ آگیا ان کے ساتھ ایک باندی تھی جو ان پیسوں سے ان کی ضروریات کا انتظام کرنے لگی اس کے پاس سات سکے بچ گئے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ ان کے پیسے خرید لے (ریزگاری حاصل کرلے) میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ ان پیسوں کو بچا کر رکھ لیتے تو کسی ضرورت میں کام آجاتے یا کسی مہمان کے آنے پر کام آجاتے انہوں نے فرمایا کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی ہے کہ جو سونا چاندی مہر بند کر کے رکھا جائے وہ اس کے مالک کے حق میں آگ کی چنگاری ہے تاوقتیکہ اسے اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کر دے۔