حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي ، عن ايوب ، عن محمد ، فذكر قصة فيها قال:" فلما قدم خير عبد الله بين ثلاثين الفا وبين آنية من فضة، قال: فاختار الآنية، قال: فقدم تجار من دارين، فباعهم إياها العشرة ثلاثة عشرة، ثم لقي ابا بكرة، فقال: الم تر كيف خدعتهم؟ قال: كيف؟ فذكر له ذلك، قال: عزمت عليك او اقسمت عليك لتردنها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، فَذَكَرَ قِصَّةً فِيهَا قَالَ:" فَلَمَّا قَدِمَ خُيِّرَ عَبْدُ اللَّهِ بَيْنَ ثَلَاثِينَ أَلْفًا وَبَيْنَ آنِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ، قَالَ: فَاخْتَارَ الْآنِيَةَ، قَالَ: فَقَدِمَ تُجَّارٌ مِنْ دَارِينَ، فَبَاعَهُمْ إِيَّاهَا الْعَشْرَةَ ثَلَاثَةَ عَشْرَةَ، ثُمَّ لَقِيَ أَبَا بَكْرَةَ، فَقَالَ: أَلَمْ تَرَ كَيْفَ خَدَعْتُهُمْ؟ قَالَ: كَيْفَ؟ فَذَكَرَ لَهُ ذَلِكَ، قَالَ: عَزَمْتُ عَلَيْكَ أَوْ أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ لَتَرُدَّنَّهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذَا" .
محمد نامی راوی ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا جب وہ آئے تو عبداللہ کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ تیس ہزار روپے لے یا چاندی کے برتن لے لے اس نے برتن لینے کو ترجیح دی پھر " دارین " سے کچھ تاجر آئے اس نے اس کے دس حصے تیرہ تیرہ ہزار میں فروخت کردیئے پھر حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے اس کی ملاقات ہوئی کہنے لگا کہ دیکھا میں نے اسے کس طرح دھوکہ دیا انہوں نے واقعہ پوچھا تو اس نے سارا واقعہ بتادیا حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اسے واپس کردو کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کی چیزوں سے منع کرتے ہوئے سنا ہے۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، لعل أبا بكرة يقصد بنهي النبى صلى الله عليه وسلم عن هذا البيع نهيه عن بيع الفضة بالفضة إلا مثلا بمثل