حدثنا يزيد ، اخبرنا كهمس بن الحسن ، حدثنا عبد الله بن شقيق ، حدثني رجل من عنزة , يقال له: زائدة او مزيدة بن حوالة , قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر من اسفاره، فنزل الناس منزلا، ونزل النبي صلى الله عليه وسلم في ظل دوحة، فرآني وانا مقبل من حاجة لي، وليس غيره وغير كاتبه، فقال:" انكتبك يا ابن حوالة؟" قلت: علام يا رسول الله؟ قال: فلها عني، واقبل على الكاتب، قال: ثم دنوت دون ذلك، قال: فقال:" انكتبك يا ابن حوالة؟" قلت: علام يا رسول الله؟ قال: فلها عني واقبل على الكاتب، قال: ثم جئت فقمت عليهما، فإذا في صدر الكتاب ابو بكر , وعمر فظننت انهما لن يكتبا إلا في خير، فقال:" انكتبك يا ابن حوالة؟" فقلت: نعم يا نبي الله , فقال:" يا ابن حوالة، كيف تصنع في فتنة تثور في اقطار الارض كانها صياصي بقر؟" قال: قلت: اصنع ماذا يا رسول الله؟ قال:" عليك بالشام" ثم قال:" كيف تصنع في فتنة كان الاولى فيها نفجة ارنب" قال: فلا ادري كيف قال في الآخرة، ولان اكون علمت كيف قال في الآخرة، احب إلي من كذا وكذا .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ عَنَزَةَ , يُقَالُ لَهُ: زَائِدَةُ أَو مَزِيدَةُ بْنُ حَوَالَةَ , قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ مِنْ أَسْفَارِهِ، فَنَزَلَ النَّاسُ مَنْزِلًا، وَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلِّ دَوْحَةٍ، فَرَآنِي وَأَنَا مُقْبِلٌ مِنْ حَاجَةٍ لِي، وَلَيْسَ غَيْرُهُ وَغَيْرُ كَاتِبِهِ، فَقَالَ:" أَنَكْتُبُكَ يَا ابْنَ حَوَالَةَ؟" قُلْتُ: عَلَامَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: فَلَهَا عَنِّي، وَأَقْبَلَ عَلَى الْكَاتِبِ، قَالَ: ثُمَّ دَنَوْتُ دُونَ ذَلِكَ، قَالَ: فَقَالَ:" أَنَكْتُبُكَ يَا ابْنَ حَوَالَةَ؟" قُلْتُ: عَلَامَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: فَلَهَا عَنِّي وَأَقْبَلَ عَلَى الْكَاتِبِ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمَا، فَإِذَا فِي صَدْرِ الْكِتَابِ أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ فَظَنَنْتُ أَنَّهُمَا لَنْ يُكْتَبَا إِلَّا فِي خَيْرٍ، فَقَالَ:" أَنَكْتُبُكَ يَا ابْنَ حَوَالَةَ؟" فَقُلْتُ: نَعَمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , فَقَالَ:" يَا ابْنَ حَوَالَةَ، كَيْفَ تَصْنَعُ فِي فِتْنَةٍ تَثُورُ فِي أَقْطَارِ الْأَرْضِ كَأَنَّهَا صَيَاصِي بَقَرٍ؟" قَالَ: قُلْتُ: أَصْنَعُ مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" عَلَيْكَ بِالشَّامِ" ثُمَّ قَالَ:" كَيْفَ تَصْنَعُ فِي فِتْنَةٍ كَأَنَّ الْأُولَى فِيهَا نَفْجَةُ أَرْنَبٍ" قَالَ: فَلَا أَدْرِي كَيْفَ قَالَ فِي الْآخِرَةِ، وَلَأَنْ أَكُونَ عَلِمْتُ كَيْفَ قَالَ فِي الْآخِرَةِ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كَذَا وَكَذَا .
حضرت ابن حوالہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ ایک درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے پاس ایک کاتب تھا جسے آپ کچھ لکھوا رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن حوالہ کیا ہم تمہیں بھی نہ لکھ دیں۔ میں نے عرض کی مجھے معلوم نہیں اللہ اور اس کے رسول نے میرے لئے کیا پسند فرمایا ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اعراض فرمالیا چنانچہ وہ دوبارہ کاتب کو املا کر انے کے لئے جھک گئے کچھ دیر بعد یہی سوال جواب ہوئے اس کے بعد میں نے دیکھا تو تحریر میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے نام لکھے ہوئے تھے میں نے اپنے دل میں میں سوچا کہ ان دونوں کا نام خیر کے ہی کام میں لکھا جاسکتا ہے چنانچہ تیسری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے ابن حوالہ کیا ہم تمہیں بھی نہ لکھ دیں۔ میں نے عرض کی جی ہاں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن حوالہ جب زمین کے اطراف واکناف میں فتنے اس طرح ابل پڑیں گے جیسے گائے کے سینگ ہوتے ہیں تو تم کیا کرو گے؟ میں نے عرض کی مجھے معلوم نہیں اللہ اور اس کے رسول میرے لئے کیا پسند فرمائیں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شام کو اپنے اوپر لازم کرلو پھر اگلا سوال پوچھا کہ اس کے بعد جب دوسرا فتنہ فورا ہی نمودار ہوگا جو خرگوش کی رفتار جیسا ہوگا تب کیا کرو گے میں نے حسب سابق جواب دیا اب مجھے یاد نہیں ہے کہ اس مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا مجھے اس جواب کا معلوم ہونا فلاں فلاں چیز سے بھی زیادہ محبوب ہے۔