(حديث موقوف) حدثنا جرير ، عن قابوس ، عن ابيه ، عن ابن عباس ، قال:" آخر شدة يلقاها المؤمن الموت، وفي قوله يوم تكون السماء كالمهل سورة المعارج آية 8، قال: كدردي الزيت، وفي قوله آناء الليل سورة آل عمران آية 113، قال: جوف الليل، وقال: هل تدرون ما ذهاب العلم؟ قال: هو ذهاب العلماء من الارض".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" آخِرُ شِدَّةٍ يَلْقَاهَا الْمُؤْمِنُ الْمَوْتُ، وَفِي قَوْلِهِ يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاءُ كَالْمُهْلِ سورة المعارج آية 8، قَالَ: كَدُرْدِيِّ الزَّيْتِ، وَفِي قَوْلِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ سورة آل عمران آية 113، قَالَ: جَوْفُ اللَّيْلِ، وَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا ذَهَابُ الْعِلْمِ؟ قَالَ: هُوَ ذَهَابُ الْعُلَمَاءِ مِنَ الأَرْضِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آخری وہ سختی جس سے مسلمان کا سامنا ہوگا، وہ موت ہے، نیز وہ فرماتے ہیں کہ «يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاءُ كَالْمُهْلِ» میں لفظ «مُهْلِ» سے مراد زیتون کے تیل کا وہ تلچھٹ ہے جو اس کے نیچے رہ جاتا ہے، اور «آنَاءَ اللَّيْلِ» کا معنی رات کا درمیان ہے، اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ علم کے چلے جانے سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد زمین سے علماء کا چلے جانا ہے۔