(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا معمر , وعبد الرزاق , قال: اخبرنا معمر ، اخبرنا الزهري ، عن علي بن حسين ، عن ابن عباس ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، جالسا في نفر من اصحابه، قال عبد الرزاق: من الانصار فرمي بنجم عظيم، فاستنار، قال:" ما كنتم تقولون إذا كان مثل هذا في الجاهلية"، قال: كنا نقول يولد عظيم، او يموت عظيم، قلت للزهري: اكان يرمى بها في الجاهلية؟ قال: نعم، ولكن غلظت حين بعث النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فإنه لا يرمى بها لموت احد ولا لحياته، ولكن ربنا تبارك اسمه إذا قضى امرا، سبح حملة العرش، ثم سبح اهل السماء الذين يلونهم، حتى يبلغ التسبيح هذه السماء الدنيا، ثم يستخبر اهل السماء الذين يلون حملة العرش، فيقول الذين يلون حملة العرش لحملة العرش: ماذا قال ربكم؟ فيخبرونهم ويخبر اهل كل سماء، سماء، حتى ينتهي الخبر إلى هذه السماء، ويخطف الجن السمع، فيرمون، فما جاءوا به على وجهه، فهو حق، ولكنهم يقذفون ويزيدون"، قال عبد الله: قال ابى , قال عبد الرزاق ويخطف الجن ويرمون.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَالِسًا فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: مِنَ الأَنْصَارِ فَرُمِيَ بِنَجْمٍ عَظِيمٍ، فَاسْتَنَارَ، قَالَ:" مَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ إِذَا كَانَ مِثْلُ هَذَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ"، قَالَ: كُنَّا نَقُولُ يُولَدُ عَظِيمٌ، أَوْ يَمُوتُ عَظِيمٌ، قُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ: أَكَانَ يُرْمَى بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلَكِنْ غُلِّظَتْ حِينَ بُعِثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَإِنَّهُ لَا يُرْمَى بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّ رَبَّنَا تَبَارَكَ اسْمُهُ إِذَا قَضَى أَمْرًا، سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ هَذِهِ السَّمَاءَ الدُّنْيَا، ثُمَّ يَسْتَخْبِرُ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ، فَيَقُولُ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ فَيُخْبِرُونَهُمْ وَيُخْبِرُ أَهْلُ كُلِّ سَمَاءٍ، سَمَاءً، حَتَّى يَنْتَهِيَ الْخَبَرُ إِلَى هَذِهِ السَّمَاءِ، وَيَخْطِفُ الْجِنُّ السَّمْعَ، فَيُرْمَوْنَ، فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ، فَهُوَ حَقٌّ، وَلَكِنَّهُمْ يَقْذِفُونَ وَيَزِيدُونَ"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ أبِى , قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَيَخْطِفُ الْجِنُّ وَيُرْمَوْنَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ تشریف فرما تھے، اتنی دیر میں ایک بڑا ستارہ ٹوٹا اور روشن ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب زمانہ جاہلیت میں اس طرح ہوتا تھا تو تم لوگ کیا کہتے تھے؟“ لوگوں نے کہا کہ ہم کہتے تھے کسی عظیم آدمی کی پیدائش یا کسی عظیم آدمی کی موت واقع ہونے والی ہے (راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام زہری رحمہ اللہ سے پوچھا: کیا زمانہ جاہلیت میں بھی ستارے پھینکے جاتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں! لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد سختی ہوگئی)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ستاروں کا پھینکا جانا کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں ہوتا، اصل بات یہ ہے کہ جب ہمارا رب کسی کام کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو حاملین عرش جو فرشتے ہیں وہ تسبیح کرنے لگتے ہیں، ان کی تسبیح سن کر قریب کے آسمان والے بھی تسبیح کرنے لگتے ہیں، حتی کہ ہوتے ہوتے یہ سلسلہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتا ہے، پھر اس آسمان والے فرشتے - جو حاملین عرش کے قریب ہوتے ہیں - ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟ وہ انہیں بتا دیتے ہیں، اس طرح ہر آسمان والے دوسرے آسمان والوں کو بتا دیتے ہیں، یہاں تک کہ یہ خبر آسمان دنیا کے فرشتوں تک پہنچتی ہے، وہاں سے جنات کوئی ایک آدھ بات اچک لیتے ہیں، ان پر یہ ستارے پھینکے جاتے ہیں، اب جو بات وہ صحیح صحیح بتا دیتے ہیں وہ تو سچ ثابت ہو جاتی ہے لیکن وہ اکثر ان میں اپنی طرف سے اضافہ کر دیتے ہیں۔“