حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن فراس ، عن الشعبي ، عن مسروق ، عن عبد الله في رجل تزوج امراة، فمات عنها، ولم يدخل بها، ولم يفرض لها. قال: " لها الصداق، وعليها العدة، ولها الميراث" . فقال معقل بن سنان : شهدت النبي صلى الله عليه وسلم قضى به في بروع بنت واشق..حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِي رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً، فَمَاتَ عَنْهَا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا. قَالَ: " لَهَا الصَّدَاقُ، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ، وَلَهَا الْمِيرَاثُ" . فَقَالَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ : شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِهِ فِي بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ..
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک مسئلہ پیش کیا گیا کہ ایک آدمی نے ایک عورت سے شادی کی اس آدمی کا انتقال ہوگیا ابھی اس نے اپنی بیوی کا مہر بھی مقرر نہیں کیا تھا اور اس سے تخلیہ کی ملاقات بھی نہیں کی تھی، اس کا کیا حکم ہے؟ یہ سوال ان سے ایک ماہ تک پوچھا جاتا رہا لیکن وہ اس کے بارے میں کوئی جواب نہ دیتے تھے بالآخر انہوں نے فرمایا کہ میں اس کا جواب اپنی رائے سے دیتا ہوں اگر وہ جواب غلط ہوا تو وہ میرے نفس کا تخیل اور شیطان کا وسوسہ ہوگا اور اگر وہ جواب صحیح ہوا تو اللہ کا فضل سے ہوگا، اس عورت (بیوہ) کو اس جیسی عورتوں کا جو مہر ہوسکتا ہے وہ دیا جائے گا اسے اپنے شوہر کی وراثت بھی ملے کی اور اس کے ذمے عدت بھی واجب ہوگی یہ فیصلہ سن کر قبیلہ اشجع کا ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس مسئلے کا وہی فیصلہ فرمایا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بروع بنت واشق کے متعلق فرمایا تھا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔