حدثنا سليمان بن داود الطيالسي ، حدثني داود بن إبراهيم الواسطي ، حدثني حبيب بن سالم ، عن النعمان بن بشير ، قال: كنا قعودا في المسجد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان بشير رجلا يكف حديثه، فجاء ابو ثعلبة الخشني، فقال: يا بشير بن سعد، اتحفظ حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم في الامراء؟ فقال حذيفة: انا احفظ خطبته، فجلس ابو ثعلبة، فقال حذيفة : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تكون النبوة فيكم ما شاء الله ان تكون، ثم يرفعها إذا شاء ان يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة، فتكون ما شاء الله ان تكون، ثم يرفعها إذا شاء الله ان يرفعها، ثم تكون ملكا عاضا، فيكون ما شاء الله ان يكون، ثم يرفعها إذا شاء ان يرفعها، ثم تكون ملكا جبرية، فتكون ما شاء الله ان تكون، ثم يرفعها إذا شاء ان يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة" . ثم سكت. قال حبيب: فلما قام عمر بن عبد العزيز، وكان يزيد بن النعمان بن بشير في صحابته، فكتبت إليه بهذا الحديث اذكره إياه، فقلت له: إني ارجو ان يكون امير المؤمنين، يعني عمر، بعد الملك العاض والجبرية، فادخل كتابي على عمر بن عبد العزيز، فسر به، واعجبه.حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا فِي الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ بَشِيرٌ رَجُلًا يَكُفُّ حَدِيثَهُ، فَجَاءَ أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ، فَقَالَ: يَا بَشِيرُ بْنَ سَعْدٍ، أَتَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأُمَرَاءِ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا أَحْفَظُ خُطْبَتَهُ، فَجَلَسَ أَبُو ثَعْلَبَةَ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ" . ثُمَّ سَكَتَ. قَالَ حَبِيبٌ: فَلَمَّا قَامَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَكَانَ يَزِيدُ بْنُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ فِي صَحَابَتِهِ، فَكَتَبْتُ إِلَيْهِ بِهَذَا الْحَدِيثِ أُذَكِّرُهُ إِيَّاهُ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي أَرْجُو أَنْ يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، يَعْنِي عُمَرَ، بَعْدَ الْمُلْكِ الْعَاضِّ وَالْجَبْرِيَّةِ، فَأُدْخِلَ كِتَابِي عَلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَسُرَّ بِهِ، وَأَعْجَبَهُ.
حضرت نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے بشیر اپنی احادیث روک رکھتے تھے ہماری مجلس میں ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے کہ اے بشیر سعد! کیا امراء حوالے سے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے؟ حضرت حذیفہ! فرمانے لگے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ یاد ہے حضرت ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا تمہارے درمیان نبوت موجود رہے گی پھر اللہ اسے اٹھانا چاہئے گا تو اٹھالے گا پھر طریقہ نبوت پر گامزن خلافت ہوگی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا پھر اللہ اسے اٹھانا چاہئے گا تو اٹھالے گا پھر کاٹ کھانے والی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا پھر اللہ اسے اٹھانا چاہئے گا تو اٹھالے گا اس کے بعد ظلم کی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا پھر اللہ اسے اٹھانا چاہئے گا تو اٹھالے گا پھر طریقہ نبوت پر گامزن خلافت آجائے گی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ راوی حدیث حبیب کہتے ہیں کہ جب عمربن عبدالعزیز خلفیہ مقرر ہوئے تو یزید بن نعمان رضی اللہ عنہ ان کے مشیربنے میں نے یزید بن نعمان کو یاد دہانی کرانے کے لئے خط میں یہ حدیث لکھ کر بھیجی اور آخر میں لکھا کہ مجھے امید ہے کہ امیر المؤمنین کی حکومت کاٹ کھانے والی اور ظلم کی حکومت کے بعد آئی ہے یزید بن نعمان نے میرا یہ خط امیر المؤمنین کی خدمت میں پیش کیا جسے پڑھ کر وہ بہت مسرور اور خوش ہوئے۔