حدثنا ابو الوليد ، قال: حدثنا ابو عوانة ، عن عبد الملك يعني ابن عمير ، عن ابن ابي المعلى ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم خطب يوما، فقال: " إن رجلا خيره ربه عز وجل بين ان يعيش في الدنيا ما شاء ان يعيش فيها، وياكل في الدنيا ما شاء ان ياكل فيها، وبين لقائه ربه، فاختار لقاء ربه". قال: فبكى ابو بكر، فقال اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: الا تعجبون من هذا الشيخ ان ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا صالحا خيره ربه عز وجل بين لقاء ربه وبين الدنيا، فاختار لقاء ربه! وكان ابو بكر اعلمهم بما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: بل نفديك يا رسول الله باموالنا وابنائنا. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من الناس احد امن علينا في صحبته وذات يده من ابن ابي قحافة، ولو كنت متخذا خليلا، لاتخذت ابن ابي قحافة، ولكن ود وإخاء إيمان، ولكن ود وإخاء إيمان مرتين وإن صاحبكم خليل الله عز وجل" .حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ عُمَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْمُعَلَّى ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ يَوْمًا، فَقَالَ: " إِنَّ رَجُلًا خَيَّرَهُ رَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَيْنَ أَنْ يَعِيشَ فِي الدُّنْيَا مَا شَاءَ أَنْ يَعِيشَ فِيهَا، وَيَأْكُلَ فِي الدُّنْيَا مَا شَاءَ أَنْ يَأْكُلَ فِيهَا، وَبَيْنَ لِقَائِه رَبِّهِ، فَاخْتَارَ لِقَاءَ رَبِّهِ". قَالَ: فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ هَذَا الشَّيْخِ أَنْ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا صَالِحًا خَيَّرَهُ رَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَيْنَ لِقَاءِ رَبِّهِ وَبَيْنَ الدُّنْيَا، فَاخْتَارَ لِقَاءَ رَبِّهِ! وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَهُمْ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلْ نَفْدِيكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَمْوَالِنَا وَأَبْنَائِنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنُّ عَلَيْنَا فِي صُحْبَتِهِ وَذَاتِ يَدِهِ مِنَ ابْنِ أَبِي قُحَافَةَ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا، لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ، وَلَكِنْ وُدٌّ وَإِخَاءُ إِيمَانٍ، وَلَكِنْ وُدٌّ وَإِخَاءُ إِيمَانٍ مَرَّتَيْنِ وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابوالمعلی سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس بات میں اختیار دے دیا کہ جب تک چاہے دنیا میں رہے اور جو چاہے کھائے اور اپنے رب کی ملاقات کے درمیان، اس نے اپنے رب سے ملنے کو ترجیح دی، یہ سن کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رونے لگے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کہنے لگے ان بڑے میاں کو تو دیکھو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیک آدمی کا ذکر کیا جسے اللہ نے دنیا اور اپنی ملاقات کے درمیان اختیار دیا اور اس نے اپنے رب سے ملاقات کو ترجیح دی؟ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی حقیقت کو ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم اپنے مال و دولت، بیٹوں اور آباؤ اجداد کو آپ کے بدلے میں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں میں اپنی رفاقت اور اپنی مملوکہ چیزوں میں مجھ پر ابن ابی قحافہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ کسی کے احسانات نہیں ہیں، اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابن ابی قحافہ رضی اللہ عنہ کو بناتا، لیکن یہاں ایمانی اخوت ومودت ہی کافی ہے، یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا: اور تمہارا پیغمبر خود اللہ کا خلیل ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة ابن أبى المعلي