حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا يحيى بن عبد الرحمن العصري ، قال: حدثنا شهاب بن عباد ، انه سمع بعض وفد عبد القيس وهو يقول: قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاشتد فرحهم بنا، فلما انتهينا إلى القوم اوسعوا لنا، فقعدنا، فرحب بنا النبي صلى الله عليه وسلم ودعا لنا، ثم نظر إلينا، فقال:" من سيدكم وزعيمكم؟" فاشرنا باجمعنا إلى المنذر بن عائذ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اهذا الاشج؟" فكان اول يوم وضع عليه هذا الاسم لضربة بوجهه بحافر حمار، فقلنا: نعم يا رسول الله. فتخلف بعد القوم، فعقل رواحلهم، وضم متاعهم، ثم اخرج عيبته، فالقى عنه ثياب السفر، ولبس من صالح ثيابه، ثم اقبل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وقد بسط النبي صلى الله عليه وسلم رجله واتكا، فلما دنا منه الاشج اوسع القوم له، وقالوا: هاهنا يا اشج. فقال النبي صلى الله عليه وسلم، واستوى قاعدا وقبض رجله:" هاهنا يا اشج". فقعد عن يمين النبي صلى الله عليه وسلم واستوى قاعدا فرحب به والطفه، ثم ساله عن بلاده، وسمى له قرية قرية الصفا، والمشقر وغير ذلك من قرى هجر، فقال: بابي وامي يا رسول الله، لانت اعلم باسماء قرانا منا. فقال:" إني قد وطئت بلادكم، وفسح لي فيها". قال: ثم اقبل على الانصار فقال:" يا معشر الانصار، اكرموا إخوانكم، فإنهم اشباهكم في الإسلام، واشبه شيء بكم اشعارا وابشارا، اسلموا طائعين غير مكرهين ولا موتورين، إذ ابى قوم ان يسلموا حتى قتلوا". فلما ان اصبحوا، قال:" كيف رايتم كرامة إخوانكم لكم، وضيافتهم إياكم؟" قالوا: خير إخوان، الانوا فرشنا، واطابوا مطعمنا، وباتوا واصبحوا يعلموننا كتاب ربنا وسنة نبينا صلى الله عليه وسلم. فاعجب النبي صلى الله عليه وسلم وفرح بها، ثم اقبل علينا رجلا رجلا يعرضنا على ما تعلمنا وعلمنا، فمنا من تعلم التحيات، وام الكتاب، والسورة والسورتين، والسنة والسنتين. ثم اقبل علينا بوجهه، فقال:" هل معكم من ازوادكم شيء؟" ففرح القوم بذلك، وابتدروا رحالهم، فاقبل كل رجل منهم معه صبرة من تمر، فوضعها على نطع بين يديه، واوما بجريدة في يده كان يختصر بها، فوق الذراع ودون الذراعين، فقال:" اتسمون هذا التعضوض؟" قلنا: نعم. ثم اوما إلى صبرة اخرى، فقال:" اتسمون هذا الصرفان؟" قلنا: نعم. ثم اوما إلى صبرة، فقال:" اتسمون هذا البرني". فقلنا: نعم. قال:" اما إنه خير تمركم وانفعه لكم". قال: فرجعنا من وفادتنا تلك، فاكثرنا الغرز منه، وعظمت رغبتنا فيه حتى صار عظم نخلنا وتمرنا البرني. قال: فقال الاشج: يا رسول الله، إن ارضنا ارض ثقيلة وخمة، وإنا إذا لم نشرب هذه الاشربة هيجت الواننا، وعظمت بطوننا. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تشربوا في الدباء والحنتم والنقير، وليشرب احدكم في سقائه يلاث على فيه". فقال له الاشج: بابي وامي يا رسول الله، رخص لنا في هذه. فاوما بكفيه، وقال: يا اشج إني إن رخصت لكم في مثل هذه". وقال بكفيه هكذا:" شربته في مثل هذه". وفرج يديه وبسطها، يعني اعظم منها،" حتى إذا ثمل احدكم من شرابه، قام إلى ابن عمه فهزر ساقه بالسيف" . وكان في الوفد رجل من بني عصر، يقال له: الحارث قد هزرت ساقه في شرب لهم في بيت تمثله من الشعر في امراة منهم، فقام بعض اهل ذلك البيت فهزر ساقه بالسيف. قال: فقال الحارث: لما سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، جعلت اسدل ثوبي لاغطي الضربة بساقي، وقد ابداها الله لنبيه صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَصَرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ بَعْضَ وَفْدِ عَبْدِ الْقَيْسِ وَهُوَ يَقُولُ: قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَدَّ فَرَحُهُمْ بِنَا، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى الْقَوْمِ أَوْسَعُوا لَنَا، فَقَعَدْنَا، فَرَحَّبَ بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَا لَنَا، ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْنَا، فَقَالَ:" مَنْ سَيِّدُكُمْ وَزَعِيمُكُمْ؟" فَأَشَرْنَا بِأَجْمَعِنَا إِلَى الْمُنْذِرِ بْنِ عَائِذٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَهَذَا الْأَشَجُّ؟" فَكَانَ أَوَّلَ يَوْمٍ وُضِعَ عَلَيْهِ هَذَا الِاسْمُ لِضَرْبَةٍ بِوَجْهِهِ بِحَافِرِ حِمَارٍ، فَقُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَتَخَلَّفَ بَعْدَ الْقَوْمِ، فَعَقَلَ رَوَاحِلَهُمْ، وَضَمَّ مَتَاعَهُمْ، ثُمَّ أَخْرَجَ عَيْبَتَهُ، فَأَلْقَى عَنْهُ ثِيَابَ السَّفَرِ، وَلَبِسَ مِنْ صَالِحِ ثِيَابِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ بَسَطَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجْلَهُ وَاتَّكَأَ، فَلَمَّا دَنَا مِنْهُ الْأَشَجُّ أَوْسَعَ الْقَوْمُ لَهُ، وَقَالُوا: هَاهُنَا يَا أَشَجُّ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتَوَى قَاعِدًا وَقَبَضَ رِجْلَهُ:" هَاهُنَا يَا أَشَجُّ". فَقَعَدَ عَنْ يَمِينِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَوَى قَاعِدًا فَرَحَّبَ بِهِ وَأَلْطَفَهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ عَنْ بِلَادِهِ، وَسَمَّى لَهُ قَرْيَةَ قَرْيَةَ الصَّفَا، وَالْمُشَقَّرِ وَغَيْرَ ذَلِكَ مِنْ قُرَى هَجَرَ، فَقَالَ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أَعْلَمُ بِأَسْمَاءِ قُرَانَا مِنَّا. فَقَالَ:" إِنِّي قَدْ وَطِئْتُ بِلَادَكُمْ، وَفُسِحَ لِي فِيهَا". قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْأَنْصَارِ فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَكْرِمُوا إِخْوَانَكُمْ، فَإِنَّهُمْ أَشْبَاهُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ، وَأَشْبَهُ شَيْءٍ بِكُمْ أَشْعَارًا وَأَبْشَارًا، أَسْلَمُوا طَائِعِينَ غَيْرَ مُكْرَهِينَ وَلَا مَوْتُورِينَ، إِذْ أَبَى قَوْمٌ أَنْ يُسْلِمُوا حَتَّى قُتِلُوا". فَلَمَّا أَنْ أَصبَحُوا، قَالَ:" كَيْفَ رَأَيْتُمْ كَرَامَةَ إِخْوَانِكُمْ لَكُمْ، وَضِيَافَتَهُمْ إِيَّاكُمْ؟" قَالُوا: خَيْرَ إِخْوَانٍ، أَلَانُوا فَرْشَنَا، وَأَطَابُوا مَطْعَمَنَا، وَبَاتُوا وَأَصْبَحُوا يُعَلِّمُونَنَا كِتَابَ رَبِّنَا وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَأُعْجِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَرِحَ بِهَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَجُلًا رَجُلًا يَعْرِضُنَا عَلَى مَا تَعَلَّمْنَا وَعَلِمْنَا، فَمِنَّا مَنْ تَعَلَّمَ التَّحِيَّاتِ، وَأُمَّ الْكِتَابِ، وَالسُّورَةَ وَالسُّورَتَيْنِ، وَالسُّنَّةَ وَالسُّنَّتَيْنِ. ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ:" هَلْ مَعَكُمْ مِنْ أَزْوَادِكُمْ شَيْءٌ؟" فَفَرِحَ الْقَوْمُ بِذَلِكَ، وَابْتَدَرُوا رِحَالَهُمْ، فَأَقْبَلَ كُلُّ رَجُلٍ منهم مَعَهُ صُبْرَةٌ مِنْ تَمْرٍ، فَوَضَعَهَا عَلَى نِطْعٍ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَوْمَأَ بِجَرِيدَةٍ فِي يَدِهِ كَانَ يَخْتَصِرُ بِهَا، فَوْقَ الذِّرَاعِ وَدُونَ الذِّرَاعَيْنِ، فَقَالَ:" أَتُسَمُّونَ هَذَا التَّعْضُوضَ؟" قُلْنَا: نَعَمْ. ثُمَّ أَوْمَأَ إِلَى صُبْرَةٍ أُخْرَى، فَقَالَ:" أَتُسَمُّونَ هَذَا الصَّرَفَانَ؟" قُلْنَا: نَعَمْ. ثُمَّ أَوْمَأَ إِلَى صُبْرَةٍ، فَقَالَ:" أَتُسَمُّونَ هَذَا الْبَرْنِيَّ". فَقُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ:" أَمَا إِنَّهُ خَيْرُ تَمْرِكُمْ وَأَنْفَعُهُ لَكُمْ". قَالَ: فَرَجَعْنَا مِنْ وِفَادَتِنَا تِلْكَ، فَأَكْثَرْنَا الْغَرْزَ مِنْهُ، وَعَظُمَتْ رَغْبَتُنَا فِيهِ حَتَّى صَارَ عُظْمَ نَخْلِنَا وَتَمْرِنَا الْبَرْنِيُّ. قَالَ: فَقَالَ الْأَشَجُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَرْضَنَا أَرْضٌ ثَقِيلَةٌ وَخِمَةٌ، وَإِنَّا إِذَا لَمْ نَشْرَبْ هَذِهِ الْأَشْرِبَةَ هِيجَتْ أَلْوَانُنَا، وَعَظُمَتْ بُطُونُنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَشْرَبُوا فِي الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالنَّقِيرِ، وَلْيَشْرَبْ أَحَدُكُمْ فِي سِقَائِهِ يُلَاثُ عَلَى فِيهِ". فَقَالَ لَهُ الْأَشَجُّ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَخِّصْ لَنَا فِي هَذِهِ. فَأَوْمَأَ بِكَفَّيْهِ، وَقَالَ: يَا أَشَجُّ إِنِّي إِنْ رَخَّصْتُ لَكُمْ فِي مِثْلِ هَذِهِ". وَقَالَ بِكَفَّيْهِ هَكَذَا:" شَرِبْتَهُ فِي مِثْلِ هَذِهِ". وَفَرَّجَ يَدَيْهِ وَبَسَطَهَا، يَعْنِي أَعْظَمَ مِنْهَا،" حَتَّى إِذَا ثَمِلَ أَحَدُكُمْ مِنْ شَرَابِهِ، قَامَ إِلَى ابْنِ عَمِّهِ فَهَزَرَ سَاقَهُ بِالسَّيْفِ" . وَكَانَ فِي الْوَفْدِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَصَرٍ، يُقَالُ لَهُ: الْحَارِثُ قَدْ هُزِرَتْ سَاقُهُ فِي شُرْبٍ لَهُمْ فِي بَيْتٍ تَمَثَّلَهُ مِنَ الشِّعْرِ فِي امْرَأَةٍ مِنْهُمْ، فَقَامَ بَعْضُ أَهْلِ ذَلِكَ الْبَيْتِ فَهَزَرَ سَاقَهُ بِالسَّيْفِ. قَالَ: فَقَالَ الْحَارِثُ: لَمَّا سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَعَلْتُ أُسْدِلُ ثَوْبِي لِأُغَطِّيَ الضَّرْبَةَ بِسَاقِي، وَقَدْ أَبْدَاهَا اللَّهُ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وفد عبدالقیس کے کچھ لوگ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا، جب ہم لوگوں کے پاس گئے تو انہوں نے ہمارے لئے جگہ کشادہ کردی، ہم لوگ وہاں جا کر بیٹھ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خوش آمدید کہا، ہمیں دعائیں دیں اور ہماری طرف دیکھ کر فرمایا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ ہم سب نے منذر بن عائذ کی طرف اشارہ کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہی اشج ہیں؟ اصل میں ان کے چہرے پر گدھے کے کھر کی چوٹ کا نشان تھا، یہ پہلا دن تھا جب ان کا یہ نام پڑا، ہم نے عرض کیا! جی یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد کچھ لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے، انہوں نے اپنی سواریوں کو باندھا، سامان سمیٹا، پراگندگی کو دور کیا، سفر کے کپڑے اتارے، عمدہ کپڑے زیب تن کئے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک پاؤں پھیلا کر پیچھے ٹیک لگائی ہوئی تھی، جب اشج قریب پہنچے تو لوگوں نے ان کے لئے جگہ کشادہ کی اور کہا کہ اے اشج! یہاں تشریف لائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور پاؤں سمیٹ لئے اور فرمایا اشج! یہاں آؤ، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب جا کر بیٹھ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خوش آمدید کہا اور ان کے ساتھ لطف و کرم سے پیش آئے اور ان کے شہروں کے متعلق دریافت فرمایا اور ایک ایک بستی مثلا صفا، مشقر وغیرہ دیگر بستیوں کے نام لئے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو تو ہماری بستویں کے نام ہم سے بھی زیادہ اچھی طرح معلوم ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے علاقوں میں گیا ہوا ہوں اور وہاں میرے ساتھ کشادگی کا معاملہ رہا ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے گروہ انصار! اپنے بھائیوں کا اکرام کرو، کہ یہ اسلام میں تمہاے مشابہہ ہیں، ملاقات اور خوشخبری میں تمہارے سب سے زیادہ مشابہہ ہیں، یہ لوگ اپنی رغبت سے بلا کسی جبر و اکرام یا ظلم کے اس وقت اسلام لائے ہیں جبکہ دوسرے لوگوں نے اسلام لانے سے انکار کردیا اور قتل ہوگئے۔ اگلے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے اپنے بھائیوں کا اکرام اور میزبانی کا طریقہ کیسا پایا؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ لوگ بہترین بھائی ثابت ہوئے ہیں، انہوں نے ہمیں نرم گرم بستر مہیا کئے، بہترین کھانا کھلایا اور صبح وشام ہمیں اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سکھاتے رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بہت خوش ہوئے، پھر ہم سب کی طرف فردا فردا متوجہ ہوئے اور ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہ چیزیں پیش کیں جو ہم نے سیکھی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں کچھ باتیں سکھائیں، ہم میں سے بعض لوگ وہ بھی تھے جنہوں نے التحیات، سورت فاتحہ، ایک دو سورتیں اور کچھ سنتیں سیکھی تھیں۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ کیا تم لوگوں کے پاس زاد راہ ہے؟ لوگ خوشی سے اپنے اپنے خیموں کی طرف دوڑے اور ہر آدمی اپنے ساتھ کھجوروں کی تھیلی لے آیا اور لا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دستر خوان پر رکھ دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے جو چھڑی پکڑی ہوئی تھی اور کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی کوکھ میں چبھاتے تھے جو ایک گز سے لمبی اور دو گز سے چھوٹی تھی سے اشارہ کر کے فرمایا کیا تم اسے تعضوض کہتے ہو؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں! پھر دوسری تھیلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کیا تم اسے برنی کہتے ہو؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سب سے زیادہ بہترین اور فائدہ مند کھجور ہے۔ ہم اپنا وہ کھانا لے کر واپس آئے تو ہم نے سوچا کہ اب سب سے زیادہ اسے اگائیں گے اور اس سلسلے میں ہماری رغبت میں اضافہ ہوگیا، حتی کہ ہمارے اکثر باغات میں برنی کھجور لگنے لگی، اسی دوران اشج کہنے لگے یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا علاقہ بنجر اور شور علاقہ ہے، اگر ہم یہ مشروبات پئیں تو ہمارے رنگ بدل جائیں اور پیٹ بڑھ جائیں؟ حنتم اور نقیر کچھ نہ پیا کرو، بلکہ تمہیں اپنے مشکیزے سے پینا چاہئے۔ اشج کہنے لگے یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، ہمیں اتنی مقدار کی (دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے اشارہ کر کے کہا) اجازت دے دیں؟ نبی صلی اللہ علیہ نے بھی اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا اگر میں تمہیں اتنی مقدار کی اجازت دے دوں
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يحيي بن عبدالرحمن مجهول، وشهاب بن عباد فيه ضعف