حدثنا علي بن بحر ، قال: حدثنا عيسى بن يونس ، قال: حدثنا ثور بن يزيد ، حدثني ابو حميد الرعيني ، قال: اخبرني يزيد ذو مصر ، قال: اتيت عتبة بن عبد السلمي ، فقلت: يا ابا الوليد، إني خرجت التمس الضحايا، فلم اجد شيئا يعجبني غير ثرماء، فما تقول؟ قال: الا جئتني بها. قلت: سبحان الله، تجوز عنك ولا تجوز عني؟! قال: نعم، إنك تشك ولا اشك، إنما" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المصفرة، والمستاصلة، والبخقاء، والمشيعة، والكسراء" . والمصفرة: التي تستاصل اذنها حتى يبدو صماخها. والمستاصلة: التي استؤصل قرنها من اصله. والبخقاء: التي تبخق عينها. والمشيعة: التي لا تتبع الغنم عجفا وضعفا وعجزا. والكسراء: التي لا تنقي. حدثنا احمد بن جناب ، حدثنا عيسى بن يونس ، فذكر نحوه.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنِي أَبُو حُمَيْدٍ الرُّعَيْنِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَزِيدُ ذُو مِصْرَ ، قَالَ: أَتَيْتُ عُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْوَلِيدِ، إِنِّي خَرَجْتُ أَلْتَمِسُ الضَّحَايَا، فَلَمْ أَجِدْ شَيْئًا يُعْجِبُنِي غَيْرَ ثَرْمَاءَ، فَمَا تَقُولُ؟ قَالَ: أَلَا جِئْتَنِي بِهَا. قُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، تَجُوزُ عَنْكَ وَلَا تَجُوزُ عَنِّي؟! قَالَ: نَعَمْ، إِنَّكَ تَشُكُّ وَلَا أَشُكُّ، إِنَّمَا" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُصْفَرَّةِ، وَالْمُسْتَأْصَلَةِ، وَالْبَخْقَاءِ، وَالْمُشَيَّعَةِ، وَالكَسْراءِ" . وَالْمُصْفَرَّةُ: الَّتِي تُسْتَأْصَلُ أُذُنُهَا حَتَّى يَبْدُوَ صِمَاخُهَا. وَالْمُسْتَأْصَلَةُ: التي استؤصل قَرْنُهَا مِنْ أَصْلِهِ. وَالْبَخْقَاءُ: الَّتِي تَبْخَقُّ عَيْنُهَا. وَالْمُشَيَّعَةُ: الَّتِي لَا تَتْبَعُ الْغَنَمَ عَجَفًا وَضَعْفًا وَعَجْزًا. وَالْكَسْرَاءُ: الَّتِي لَا تُنْقِي. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
یزید ذو مصر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے ابو الولید! میں قربانی کے جانور کی تلاش میں نکلا، مجھے کوئی جانور نہیں ملا، صرف ایک جانور مل رہا تھا لیکن اس کا دانت ٹوٹا ہوا تھا، آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ تم اسے میرے پاس کیوں نہ لے آئے؟ میں نے کہا سبحان اللہ! آپ کی طرف سے اس کی قربانی ہوجائے گی اور میری طرف سے نہیں ہوگی؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اس لئے کہ تمہیں شک ہے اور مجھے کوئی شک نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مصفرہ، جڑ سے اکھڑے ہوئے سینگ دار، بخقاء۔ مشیعہ اور کسراء سے منع فرمایا ہے۔ مصفرہ سے مراد وہ جانور ہے جس کا کان جڑ سے کٹا ہوا ہو اور اس کا سوراخ نطر آرہا ہو، بخقاء سے مراد وہ جانور ہے جس کی آنکھ کانی ہو، مشیعہ سے مراد وہ جانور ہے جو کمزوری اور لاچاری کی وجہ سے بکریوں کے ساتھ نہ چل سکے اور کسراء سے مراد وہ جانور ہے جس کی ہڈی ٹوٹی ہو اور وہ سیدھی نہ چل سکے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو حميد الرعيني، ويزيد مجهولان