حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن ، قال: حدثني يزيد مولى المنبعث، عن زيد بن خالد الجهني ، قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم بلقطة، فقال: " عرفها سنة، ثم اعرف عفاصها ووكاءها، فإن جاء احد يخبرك بها، وإلا فاستنفقها" . قال: يا رسول الله، فضالة الغنم؟ قال: " لك، او لاخيك، او للذئب" . قال: يا رسول الله، ضالة الإبل؟ قال: فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: " ما لك ولها؟ معها حذاؤها وسقاؤها، ترد الماء، وتاكل الشجر" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلُقَطَةٍ، فَقَالَ: " عَرِّفْهَا سَنَةً، ثُمَّ اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُخْبِرُكَ بِهَا، وَإِلَّا فَاسْتَنْفِقْهَا" . قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ قَالَ: " لَكَ، أَوْ لِأَخِيكَ، أَوْ لِلذِّئْبِ" . قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ضَالَّةُ الْإِبِلِ؟ قَالَ: فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: " مَا لَكَ وَلَهَا؟ مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا، تَرِدُ الْمَاءَ، وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ" .
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے خود یا کسی اور آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ بکری کا حکم پوچھا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے پکڑ لو گے یا بھیڑیا لے جاۓ گا“، سائل نے پوچھا: یا رسول اللہ! گمشدہ اونٹ ملے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی ناراض ہوئے، حتیٰ کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے اور فرمایا: ”تمہارا اس کے ساتھ کیا تعلق؟ اس کے پاس مشکیزہ اور جوتے ہیں اور وہ درختوں کے پتے کھا سکتا ہے“، پھر سائل نے پوچھا: یا رسول اللہ! اگر مجھے کسی تھیلی میں چاندی مل جائے تو آپ کیا فرماتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا ظرف، اس کا بندھن اور اس کی تعداد اچھی طرح محفوظ کر کے ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس دوران اس کا مالک آ جاۓ تو اس کے حوالے کر دو، ورنہ وہ تمہاری ہو گئی۔“