(حديث قدسي) حدثنا حدثنا ابو سلمة منصور بن سلمة الخزاعي ، حدثنا ليث ، عن يزيد بن الهاد ، عن عمرو بن ابي عمرو ، عن ابي الحويرث ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، عن عبد الرحمن بن عوف ، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتبعته حتى دخل نخلا، فسجد، فاطال السجود حتى خفت، او خشيت، ان يكون الله قد توفاه او قبضه، قال: فجئت انظر، فرفع راسه، فقال:" ما لك يا عبد الرحمن"، قال: فذكرت ذلك له، قال: فقال:" إن جبريل عليه السلام , قال لي: الا ابشرك؟ إن الله عز وجل يقول لك: من صلى عليك صليت عليه، ومن سلم عليك، سلمت عليه".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي الْحُوَيْرِثِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاتَّبَعْتُهُ حَتَّى دَخَلَ نَخْلًا، فَسَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ حَتَّى خِفْتُ، أَوْ خَشِيتُ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ قَدْ تَوَفَّاهُ أَوْ قَبَضَهُ، قَالَ: فَجِئْتُ أَنْظُرُ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ:" مَا لَكَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ"، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: فَقَالَ:" إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام , قَالَ لِي: أَلَا أُبَشِّرُكَ؟ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ لَكَ: مَنْ صَلَّى عَلَيْكَ صَلَّيْتُ عَلَيْهِ، وَمَنْ سَلَّمَ عَلَيْكَ، سَلَّمْتُ عَلَيْهِ".
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، میں بھی پیچھے پیچھے چلا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہو گئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کر دی اور اتنا طویل سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں آپ کی روح تو قبض نہیں ہو گئی، میں دیکھنے کے لئے آگے بڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر فرمایا: ”عبدالرحمن! کیا ہوا؟“ میں نے اپنا اندیشہ ذکر کر دیا، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرئیل نے مجھ سے کہا ہے کہ کیا میں آپ کو خوشخبری نہ سناؤں؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص آپ پر درود بھیجے گا، میں اس پر اپنی رحمت نازل کروں گا، اور جو شخص آپ پر سلام پڑھے گا میں اس پر سلام پڑھوں گا، یعنی اسے سلامتی دوں گا۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو الحويرث فيه ضعف من قبل حفظه.