مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
342. وقَالَ أَبُو النَّضْرِ فِي حَدِيثِهِ : ابْنُ رَاعِي الْعَيْرِ مِنْ أَشْجَعَ
حدیث نمبر: 16502
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثنا إياس بن سلمة ، قال: حدثني ابي ، قال: خرجنا مع ابي بكر بن ابي قحافة، امره رسول الله صلى الله عليه وسلم علينا، قال: غزونا فزارة، فلما دنونا من الماء امرنا ابو بكر فعرسنا، قال: فلما صلينا الصبح، امرنا ابو بكر فشننا الغارة، فقتلنا على الماء من قتلنا، قال سلمة: ثم نظرت إلى عنق من الناس فيه الذرية والنساء نحو الجبل، وانا اعدو في آثارهم، فخشيت ان يسبقوني إلى الجبل، فرميت بسهم، فوقع بينهم وبين الجبل، قال: فجئت بهم اسوقهم إلى ابي بكر رضي الله عنه حتى اتيته على الماء، وفيهم امراة من فزارة عليها قشع من ادم، ومعها ابنة لها من احسن العرب، قال: فنفلني ابو بكر ابنتها، قال: فما كشفت لها ثوبا حتى قدمت المدينة، ثم بت فلم اكشف لها ثوبا، قال: فلقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم في السوق، فقال لي:" يا سلمة، هب لي المراة"، قال: فقلت: يا رسول الله، والله لقد اعجبتني، وما كشفت لها ثوبا، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم وتركني، حتى إذا كان من الغد لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم في السوق، فقال:" يا سلمة، هب لي المراة لله ابوك"، قال: قلت: يا رسول الله، والله اعجبتني، ما كشفت لها ثوبا، وهي لك يا رسول الله، قال: فبعث بها رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اهل مكة، وفي ايديهم اسارى من المسلمين، ففداهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بتلك المراة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةَ، َأَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا، قَالَ: غَزَوْنَا فَزَارَةَ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنَ الْمَاءِ أَمَرَنَا أَبُو بَكْرٍ فَعَرَّسْنَا، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّيْنَا الصُّبْحَ، أَمَرَنَا أَبُو بَكْرٍ فَشَنَنَّا الْغَارَةَ، فَقَتَلْنَا عَلَى الْمَاءِ مَنْ قَتَلْنَا، قَالَ سَلَمَةُ: ثُمَّ نَظَرْتُ إِلَى عُنُقٍ مِنَ النَّاسِ فِيهِ الذُّرِّيَّةُ وَالنِّسَاءُ نَحْوَ الْجَبَلِ، وَأَنَا أَعْدُو فِي آثَارِهِمْ، فَخَشِيتُ أَنْ يَسْبِقُونِي إِلَى الْجَبَلِ، فَرَمَيْتُ بِسَهْمٍ، فَوَقَعَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْجَبَلِ، قَالَ: فَجِئْتُ بِهِمْ أَسُوقُهُمْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى أَتَيْتُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَفِيهِمْ امْرَأَةٌ مِنْ فَزَارَةَ عَلَيْهَا قَشْعٌ مِنْ أَدَمٍ، وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ، قَالَ: فَنَفَّلَنِي أَبُو بَكْرٍ ابْنَتَهَا، قَالَ: فَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، ثُمَّ بِتُّ فَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا، قَالَ: فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ لِي:" يَا سَلَمَةُ، هَبْ لِي الْمَرْأَةَ"، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ أَعْجَبَتْنِي، وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرَكَنِي، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ:" يَا سَلَمَةُ، هَبْ لِي الْمَرْأَةَ لِلَّهِ أَبُوكَ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ أَعْجَبَتْنِي، مَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، وَهِيَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَبَعَثَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، وَفِي أَيْدِيهِمْ أُسَارَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَفَدَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا، ہم بنو فزارہ سے جہاد کے لئے جا رہے تھے، جب ہم ایسی جگہ پر پہنچے جو پانی کے قریب تھی تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے پڑاؤ ڈال دیا، فجر کی نماز پڑھ کر انہوں نے ہمیں دشمن پر حملہ کا حکم دیا اور ہم ان پر ٹوٹ پڑے اور اس ندی کے قریب بیشمار لوگوں کو قتل کر دیا، اچانک میری نظر ایک تیز رفتار گروہ پر پڑی جو پہاڑ کی طرف چلا جا رہا تھا، اس میں عورتیں اور بچے تھے، میں ان کے پیچھے روانہ ہو گیا، لیکن پھر خطرہ ہوا کہ کہیں وہ مجھے سے پہلے ہی پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں اس لئے میں نے ان کی طرف ایک تیر پھینکا جو ان کے اوپر پہاڑ کے درمیان جاگرا۔ پھر میں انہیں ہانکتا ہوا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا اور اسی ندی کے پاس پہنچ گیا، ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت بھی تھی جس نے چمڑے کی پوستین پہن رکھی تھی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو عرب کی انتہائی حسین و جمیل لڑکی تھی، اس کی وہ بیٹی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مجھے انعام کے طور پر بخش دی، میں نے مدینہ منورہ پہنچنے تک اس کا گھونگھٹ بھی کھول کر نہیں دیکھا، پھر رات ہوئی تب بھی میں نے اس کا گھونگھٹ نہیں ہٹایا، اگلے دن سر بازار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہو گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمانے لگے سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں نے اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور مجھے چھوڑ کر چلے گئے، اگلے دن پھر سر بازار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات دہرائی اور مجھے میرے باپ کی قسم دی، میں نے قسم کھا کر عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں نے اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا، لیکن یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! اب میں وہ آپ کو دیتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لڑکی اہل مکہ کے پاس بھجوادی جن کے قبضے میں بہت سے مسلمان قیدی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فدیئے میں اس لڑکی کو پیش کر کے ان قیدیوں کو چھڑا لیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1755


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.