(حديث مرفوع) حدثنا حجين بن المثني ، ويونس ، قالا: حدثنا الليث بن سعد , عن ابي الزبير ، عن جابر بن عبد الله , قال: اقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مهلين بالحج مفردا , فاقبلت عائشة مهلة بعمرة , حتى إذا كانت بسرف عركت , حتى إذا قدمنا طفنا بالكعبة والصفا والمروة , وامرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يحل منا من لم يكن معه هدي , قال: فقلنا: حل ماذا؟، قال:" الحل كله"، فواقعنا النساء , وتطيبنا بالطيب , وليس بيننا وبين عرفة إلا اربع ليال , ثم اهللنا يوم التروية. ثم دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم على عائشة فوجدها تبكي , فقال:" ما شانك؟"، قالت: شاني اني حضت , وقد حل الناس ولم احلل , ولم اطف بالبيت , والناس يذهبون إلى الحج الآن، قال:" فإن هذا امر كتبه الله على بنات آدم , فاغتسلي ثم اهلي بالحج"، ففعلت , ووقفت المواقف كلها , حتى إذا طهرت , طافت بالكعبة وبالصفا والمروة , ثم قال:" قد حللت من حجك وعمرتك جميعا"، فقالت: يا رسول الله , إني اجد في نفسي اني لم اطف بالبيت حتى حججت، قال:" فاذهب بها يا عبد الرحمن بن ابي بكر , فاعمرها من التنعيم"، وذلك ليلة الحصبة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّي ، وَيُونُسُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ مُفْرَدًا , فَأَقْبَلَتْ عَائِشَةُ مُهِلَّةً بِعُمْرَةٍ , حَتَّى إِذَا كَانَتْ بِسَرِفَ عَرَكَتْ , حَتَّى إِذَا قَدِمْنَا طُفْنَا بِالْكَعْبَةِ وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ , وَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحِلَّ مِنَّا مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ , قَالَ: فَقُلْنَا: حِلُّ مَاذَا؟، قَالَ:" الْحِلُّ كُلُّهُ"، فَوَاقَعْنَا النِّسَاءَ , وَتَطَيَّبْنَا بِالطِّيبِ , وَلَيْسَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا أَرْبَعُ لَيَالٍ , ثُمَّ أَهْلَلْنَا يَوْمَ التَّرْوِيَةِ. ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَائِشَةَ فَوَجَدَهَا تَبْكِي , فَقَالَ:" مَا شَأْنُكِ؟"، قَالَتْ: شَأْنِي أَنِّي حِضْتُ , وَقَدْ حَلَّ النَّاسُ وَلَمْ أَحْلِلْ , وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ , وَالنَّاسُ يَذْهَبُونَ إِلَى الْحَجِّ الْآنَ، قَالَ:" فَإِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ , فَاغْتَسِلِي ثُمَّ أَهِلِّي بِالْحَجِّ"، فَفَعَلَتْ , وَوَقَفَتْ الْمَوَاقِفَ كُلَّهَا , حَتَّى إِذَا طَهُرَتْ , طَافَتْ بِالْكَعْبَةِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ , ثُمَّ قَالَ:" قَدْ حَلَلْتِ مِنْ حَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ جَمِيعًا"، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي أَنِّي لَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ حَتَّى حَجَجْتُ، قَالَ:" فَاذْهَبْ بِهَا يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ , فَأَعْمِرْهَا مِنَ التَّنْعِيمِ"، وَذَلِك لَيْلَةَ الْحَصْبَةِ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صرف حج کے ارادہ سے مکہ مکر مہ روانہ ہوئے سیدنا عائشہ نے عمرے کا احرام باندھا مقام سرف میں پہنچ کر انہیں ایام آ گئے ہم نے تو مکہ مکر مہ پہنچ کر خانہ کعبہ کا طواف کیا صفامروہ کی سعی کی اور ہم میں سے جس کے پاس ہدی کا جانور نہیں تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حلال ہو نے کا حکم دیا ہم نے حلال ہو نے کی نوعیت پوچھی تو فرمایا کہ مکمل حلال ہو جاؤ چنانچہ ہم اپنی عورتوں کے پاس گئے خوشبو لگائی جبکہ ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف چار راتیں تھیں پھر ہم نے آٹھ ذی الحجہ کو احرام حج باندھا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عائشہ کے پاس تشریف لائے تو وہ رورہی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگی کہ میں اس بات پر رو رہی ہوں کہ سب لوگ احرام کھول چکے ہیں لیکن میں اب تک نہیں کھول پائی لوگوں نے طواف کر لیا لیکن میں اب تک نہیں کر سکی اور حج کے ایام سر پر ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں میں لکھ دی ہے اس لئے تم غسل کر کے حج کا احرام باندھ لو اور حج کر لو چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور مجبوری سے فراغت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کر لو اس طرح تم اپنے حج اور عمرے کے احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاؤ گی وہ کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! میرے دل میں ہمیشہ اس بات کی خلش رہے گی کہ میں نے حج تک کوئی طواف نہیں کیا اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھائی عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہا انہیں لے جاؤ اور تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ یہی حصبہ کی رات تھی۔