(حديث قدسي) حدثنا روح بن عبادة , حدثنا ابن جريج , اخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله يسال عن الورود , قال:" نحن يوم القيامة على كذا وكذا" , انظر اي ذلك فوق الناس , قال:" فتدعى الامم باوثانها وما كانت تعبد , الاول فالاول , ثم ياتينا ربنا بعد ذلك , فيقول: من تنتظرون؟، فيقولون: ننتظر ربنا عز وجل، فيقول: انا ربكم، فيقولون: حتى ننظر إليك، فيتجلى لهم يضحك"، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم قال:" فينطلق بهم ويتبعونه , ويعطى كل إنسان منافق او مؤمن نورا، ثم يتبعونه , على جسر جهنم كلاليب، وحسك تاخذ من شاء الله , ثم يطفا نور المنافق , ثم ينجو المؤمنون فتنجو اول زمرة , وجوههم كالقمر ليلة البدر , سبعون الفا لا يحاسبون , ثم الذين يلونهم كاضوإ نجم في السماء , ثم كذلك , ثم تحل الشفاعة , حتى يخرج من النار من قال: لا إله إلا الله , وكان في قلبه من الخير ما يزن شعيرة , فيجعلون بفناء اهل الجنة، ويجعل اهل الجنة يرشون عليهم الماء , حتى ينبتون نبات الشيء في السيل , ثم يسال حتى يجعل له الدنيا وعشرة امثالها معها".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ , حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَسْأَلُ عَنِ الْوُرُودِ , قَالَ:" نَحْنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى كَذَا وَكَذَا" , انْظُرْ أَيْ ذَلِكَ فَوْقَ النَّاسِ , قَالَ:" فَتُدْعَى الْأُمَمُ بِأَوْثَانِهَا وَمَا كَانَتْ تَعْبُدُ , الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ , ثُمَّ يَأْتِينَا رَبُّنَا بَعْدَ ذَلِكَ , فَيَقُولُ: مَنْ تَنْتَظِرُونَ؟، فَيَقُولُونَ: نَنْتَظِرُ رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: حَتَّى نَنْظُرَ إِلَيْكَ، فَيَتَجَلَّى لَهُمْ يَضْحَكُ"، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" فَيَنْطَلِقُ بِهِمْ وَيَتَّبِعُونَهُ , وَيُعْطَى كُلُّ إِنْسَانٍ مُنَافِقٍ أَوْ مُؤْمِنٍ نُورًا، ثُمَّ يَتَّبِعُونَهُ , عَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ، وَحَسَكٌ تَأْخُذُ مَنْ شَاءَ اللَّهُ , ثُمَّ يُطْفَأُ نُورُ الْمُنَافِقِ , ثُمَّ يَنْجُو الْمُؤْمِنُونَ فَتَنْجُو أَوَّلُ زُمْرَةٍ , وُجُوهُهُمْ كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ , سَبْعُونَ أَلْفًا لَا يُحَاسَبُونَ , ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ كَأَضْوَإِ نَجْمٍ فِي السَّمَاءِ , ثُمَّ كَذَلِكَ , ثُمَّ تَحِلُّ الشَّفَاعَةُ , حَتَّى يَخْرُجَ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً , فَيُجْعَلُونَ بِفِنَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَيَجْعَلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ يَرُشُّونَ عَلَيْهِمِ الْمَاءَ , حَتَّى يَنْبُتُونَ نَبَاتَ الشَّيْءِ فِي السَّيْلِ , ثُمَّ يَسْأَلُ حَتَّى يُجْعَلَ لَهُ الدُّنْيَا وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهَا مَعَهَا".
ابوزبیر نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ورود کے متعلق سوال کیا انہوں نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے قیامت کے دن ہم تمام لوگوں سے اوپر ایک ٹیلے پر ہوں گے درجہ بدرجہ تمام امتوں اور ان کے بتوں کو بلایا جائے گا پھر ہمارا پروردگار ہمارے پاس آ کر پوچھے گا کہ تم کس کا انتظار کر رہے ہو لوگ جواب دیں گے کہ ہم اپنے پروردگار کا انتظار کر رہے ہیں وہ کہے گا کہ میں ہی تمہارا رب ہوں لوگ کہیں گے کہ ہم اسے دیکھنے تک یہیں ہیں چنانچہ پروردگار ان کے سامنے اپنی ایک تجلی ظاہر فرمائے گا جس میں وہ مسکرا رہا ہو گا اور ہر انسان کو خواہ منافق ہو یا پکا مومن ایک نور دیا جائے گا پھر اس پر اندھیرا چھا جائے گا پھر مسلمانوں کے ساتھ منافق بھی پیچھے پیچھے پل صراط پر چڑھیں گے جس میں کانٹے اور چبھنے والی چیزیں ہوں گی جو لوگوں کو اچک لیں گی اس کے بعد منافقین کا نور بجھ جائے گا اور مسلمان اس پر پل صراط سے نجات پاجائیں گے نجات پانے والے مسلمانوں کا پہل اگر وہ اپنے چہروں میں چودہو یں رات کے چاند کی طرح ہو گا یہ لوگ ستر ہزار ہوں گے اور ان کا کوئی حساب نہ ہو گا دوسرے نمبر پر نجات پانے والے اس ستارے کی مانند ہوں گے جو آسمان میں سب سے زیادہ روشن ہوں پھر درجہ بدرجہ یہاں تک کہ شفاعت کی اجازت دیدی جائے گی اور لوگ سفارش کر یں گے جس کی بناء پر ہر وہ شخص جہنم سے نکال لیا جائے گا جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا اور اسے صحن جنت میں لے جایا جائے گا اور اہل جنت اس پر پانی بہانے لگیں گے حتی کہ وہ اس طرح اگ آئیں گے جیسے سیلاب میں خودرو پودے اگ آتے ہیں اور ان کے جسم کی جلن دور ہو جائے گی پھر اللہ ان سے پوچھے گا کہ اور انہیں دنیا اور اس سے دس گنا زیادہ عطا فرمائے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 191، وقوله: « نحن يوم القيامة ... فوق الناس » تصحیف وتغیر واختلاط في اللفظ، وصوابه: نجیئ یوم القيامه علی کوم