مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر

مشكوة المصابيح
كتاب الفضائل والشمائل
حدیث نمبر: 5972
Save to word اعراب
وعن جعفر بن محمد عن ابيه ان رجلا من قريش دخل على ابيه علي بن الحسين فقال الا احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: بلى حدثنا عن ابي القاسم صلى الله عليه وسلم قال: لما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم اتاه جبريل فقال: يا محمد إن الله ارسلني إليك تكريما لك وتشريفا لك خاصة لك يسالك عما هو اعلم به منك يقول: كيف تجدك؟ قال: اجدني يا جبريل مغموما واجدني يا جبريل مكروبا. ثم جاءه اليوم الثاني فقال له ذلك فرد عليه النبي صلى الله عليه وسلم كما رد اول يوم ثم جاءه اليوم الثالث فقال له كما قال اول يوم ورد عليه كما رد عليه وجاء معه ملك يقال له: إسماعيل على مائة الف ملك كل ملك على مائة الف ملك فاستاذن عليه فساله عنه. ثم قال جبريل: هذا ملك الموت يستاذن عليك. ما استاذن على آدمي قبلك ولا يستاذن على آدمي بعدك. فقال: ائذن له فاذن له فسلم عليه ثم قال يا محمد إن الله ارسلني إليك فإن امرتني ان اقبض روحك قبضت وإن امرتني ان اتركه تركته فقال: وتفعل يا ملك الموت؟ قال: نعم بذلك امرت وامرت ان اطيعك. قال: فنظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى جبريل عليه السلام فقال جبريل: يا محمد إن الله قد اشتاق إلى لقائك فقال النبي صلى الله عليه وسلم لملك الموت: «امض لما امرت به» فقبض روحه فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وجاءت التعزية سمعوا صوتا من ناحية البيت: السلام عليكم اهل البيت ورحمة الله وبركاته إن في الله عزاء من كل مصيبة وخلفا من كل هالك ودركا من كل فائت فبالله فثقوا وإياه فارجوا فإنما المصاب من حرم الثواب. فقال علي: اتدرون من هذا؟ هو الخضر عليه السلام. رواه البيهقي في «دلائل النبوة» وَعَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ دَخَلَ عَلَى أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَقَالَ أَلَا أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: بَلَى حَدِّثْنَا عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ تَكْرِيمًا لَكَ وَتَشْرِيفًا لَكَ خَاصَّةً لَكَ يَسْأَلُكَ عَمَّا هُوَ أَعْلَمُ بِهِ مِنْكَ يَقُولُ: كَيْفَ تجدك؟ قَالَ: أجدُني يَا جِبْرِيل مغموماً وأجدني يَا جِبْرِيل مَكْرُوبًا. ثُمَّ جَاءَهُ الْيَوْمُ الثَّانِي فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ فَرَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا رَدَّ أَوَّلَ يَوْمٍ ثُمَّ جَاءَهُ الْيَوْمَ الثَّالِثَ فَقَالَ لَهُ كَمَا قَالَ أَوَّلَ يَوْمٍ وَرَدَّ عَلَيْهِ كَمَا رَدَّ عَلَيْهِ وَجَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ يُقَالُ لَهُ: إِسْمَاعِيلُ عَلَى مِائَةِ أَلْفِ مَلَكٍ كُلُّ مَلَكٍ عَلَى مِائَةِ أَلْفِ مَلَكٍ فَاسْتَأْذَنَ عَلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهُ. ثُمَّ قَالَ جِبْرِيل: هَذَا مَلَكُ الْمَوْتِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْكَ. مَا اسْتَأْذَنَ عَلَى آدَمِيٍّ قَبْلَكَ وَلَا يَسْتَأْذِنُ عَلَى آدَمِيٍّ بَعْدَكَ. فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ فَأَذِنَ لَهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ فَإِنْ أَمَرْتَنِي أَنْ أَقْبِضَ رُوحَكَ قَبَضْتُ وَإِنْ أَمَرْتَنِي أَنْ أَتْرُكَهُ تَرَكْتُهُ فَقَالَ: وَتَفْعَلُ يَا مَلَكَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: نَعَمْ بِذَلِكَ أُمرتُ وأُمرتُ أَن أطيعَك. قَالَ: فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ جِبْرِيلُ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ قَدِ اشْتَاقَ إِلَى لِقَائِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَلَكِ الْمَوْتِ: «امْضِ لِمَا أُمِرْتَ بِهِ» فَقَبَضَ رُوحَهُ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَتِ التَّعْزِيَةُ سَمِعُوا صَوْتًا مِنْ نَاحِيَةِ الْبَيْتِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ إِنَّ فِي اللَّهِ عَزَاءً مِنْ كُلِّ مُصِيبَةٍ وَخَلَفًا مِنْ كُلِّ هالكٍ ودَرَكاً من كلِّ فَائت فبالله فثقوا وَإِيَّاهُ فَارْجُوا فَإِنَّمَا الْمُصَابُ مَنْ حُرِمَ الثَّوَابَ. فَقَالَ عَلِيٌّ: أَتَدْرُونَ مَنْ هَذَا؟ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَامُ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ»
جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قریش میں سے ایک آدمی ان کے والد علی بن حسین کے پاس آیا اور اس نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث نہ سناؤں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، ابوالقاسم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث ہمیں سناؤ، اس آدمی نے کہا: جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیمار ہوئے تو جبریل ؑ آپ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: محمد! اللہ نے آپ کی تکریم و تعظیم کی خاطر مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے، وہ آپ کے لیے خاص ہے، وہ آپ سے اس چیز کے متعلق دریافت کرتا ہے، جس کے متعلق وہ آپ سے بہتر جانتا ہے، وہ فرماتا ہے: آپ اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہیں؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل! میں اپنے آپ کو مغموم پاتا ہوں، اور جبریل! میں اپنے آپ کو کرب میں محسوس کرتا ہوں۔ پھر وہ دوسرے روز آئے تو انہوں نے آپ سے یہی کہا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہی جواب دیا جو آپ نے پہلے روز دیا تھا۔ پھر وہ تیسرے روز آپ کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے وہی کچھ کہا جو پہلے روز کہا تھا، اور آپ نے بھی انہیں وہی جواب دیا، اور آخری بار جبریل ؑ کے ساتھ اسماعیل نامی فرشتہ آیا جو ایک لاکھ فرشتے کا سردار ہے، اور اس کا ہر ماتحت فرشتہ لاکھ فرشتے کا سردار ہے، اس نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت طلب کی، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل ؑ سے اس (فرشتوں) کے متعلق دریافت کیا، تو جبریل ؑ نے عرض کیا: یہ موت کا فرشتہ ہے، وہ آپ کے پاس آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے، اس نے آپ سے پہلے کسی آدمی سے اجازت طلب کی ہے نہ آپ کے بعد کسی آدمی سے اجازت طلب کرے گا۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے اجازت دے دیں۔ اسے اجازت دے دی گئی، اس نے سلام کیا، پھر کہا: محمد! اللہ نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے، اگر آپ اپنی روح قبض کرنے کی مجھے اجازت دیں تو میں قبض کر لوں گا، اور اگر آپ نے اجازت نہ فرمائی تو میں اسے قبض نہیں کروں گا۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: موت کے فرشتے! کیا تم ایسے کرو گے؟ اس نے کہا: ہاں، کیونکہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ کی چاہت کا احترام کروں، راوی بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل ؑ کی طرف دیکھا تو جبریل ؑ نے کہا: محمد! اللہ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے، تب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ملک الموت سے فرمایا: تمہیں جو حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کرو۔ اس نے آپ کی روح قبض کی، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی اور تعزیت کرنے والے حاضر ہوئے تو انہوں نے گھر کے کونے سے آواز سنی: اہل بیت! تم پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں، بے شک اللہ کی کتاب میں ہر مصیبت سے عزا و تسلی ہے، ہر ہلاک ہونے والی چیز کا معاوضہ ہے، اور ہر نقصان کا تدراک ہے، اللہ کی توفیق کے ساتھ اللہ سے ڈرو، صرف اس سے امید وابستہ کرو، خسارے والا شخص وہ ہے جو ثواب سے محروم ہو گیا علی (زین العابدین ؒ) نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ وہ شخص کون تھا؟ وہ خضر ؑ تھے۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في دلائل النبوة (7/ 267. 268) [والشافعي في السنن المأثورة (ص334. 335 ح 390 رواية الطحاوي عن المزني) و السھمي في تاريخ جرجان (ص 363. 364)]
٭ فيه قاسم بن عبد الله بن عمر بن حفص: متروک رواه أحمد بالکذب.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.