وفي رواية للبخاري عن ابي سعيد: بالظهر فإن شدة الحر من فيح جهنم واشتكت النار إلى ربها فقالت: رب اكل بعضي بعضا فاذن لها بنفسين نفس في الشتاء ونفس في الصيف اشد ما تجدون من الحر واشد ما تجدون من الزمهرير. وفي رواية للبخاري: «فاشد ما تجدون من الحر فمن سمومها واشد ما تجدون من البرد فمن زمهريرها» وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ: بِالظُّهْرِ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ وَاشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا فَقَالَتْ: رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ أَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحر وَأَشد مَا تَجِدُونَ من الزَّمْهَرِير. وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ: «فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِّ فَمِنْ سَمُومِهَا وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْبرد فَمن زمهريرها»
ابوسعید رضی اللہ عنہ سے ظہر کے متعلق بخاری کی روایت میں ہے: ”کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ کی وجہ سے ہے، جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے عرض کیا، میرے رب! میرے بعض حصے نے بعض کو کھا لیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس، ایک سانس موسم سرما میں اور ایک سانس موسم گرما میں، لینے کی اجازت فرمائی، تم جو زیادہ گرمی اور زیادہ سردی پاتے ہو وہ اسی وجہ سے ہے۔ “ بخاری، مسلم۔ متفق علیہ۔ اور بخاری کی روایت میں ہے، ”پس تم جو گرمی کی شدت پاتے ہو تو وہ اس کی گرم ہوا کی وجہ سے ہے، اور تم جو زیادہ سردی پاتے ہو تو وہ اس کی ٹھنڈک کی وجہ سے ہے۔ “
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (537) و مسلم (186/ 617) کلاھما من حديث أبي ھريرة رضي الله عنه، ولحديث أبي سعيد انظر الحديث السابق (590)»