وعن ابن شهاب عن انس قال: كان ابو ذر يحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فرج عني سقف بيتي وانا بمكة فنزل جبريل ففرج صدري ثم غسله بماء زمزم ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فافرغه في صدري ثم اطبقه ثم اخذ بيدي فعرج بي إلى السماء الدنيا. قال جبريل لخازن السماء: افتح. قال: من هذا؟ قال جبريل. قال: هل معك احد؟ قال: نعم معي محمد صلى الله عليه وسلم. فقال: ارسل إليه؟ قال: نعم فلما فتح علونا السماء الدنيا إذا رجل قاعد على يمينه اسودة وعلى يساره اسودة إذا نظر قبل يمينه ضحك وإذا نظر قبل شماله بكى فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح. قلت لجبريل: من هذا؟ قال: هذا آدم وهذه الاسودة عن يمينه وعن شماله نسم بنيه فاهل اليمين منهم اهل الجنة والاسودة عن شماله اهل النار فإذا نظر عن يمينه ضحك وإذا نظر قبل شماله بكى حتى عرج بي إلى السماء الثانية فقال لخازنها: افتح فقال له خازنها مثل ما قال الاول قال انس: فذكر انه وجد في السماوات آدم وإدريس وموسى وعيسى وإبراهيم ولم يثبت كيف منازلهم غير انه ذكر انه وجد آدم في السماء الدنيا وإبراهيم في السماء السادسة. قال ابن شهاب: فاخبرني ابن حزم ان ابن عباس وابا حبة الانصاري كانا يقولان. قال النبي صلى الله عليه وسلم: «ثم عرج بي حتى وصلت لمستوى اسمع فيه صريف الاقلام» وقال ابن حزم وانس: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ففرض الله على امتي خمسين صلاة فرجعت بذلك حتى مررت على موسى. فقال: ما فرض الله لك على امتك؟ قلت: فرض خمسين صلاة. قال: فارجع إلى ربك فإن امتك لا تطيق فراجعت فوضع شطرها فرجعت إلى موسى فقلت: وضع شطرها فقال: راجع ربك فإن امتك لا تطيق ذلك فرجعت فراجعت فوضع شطرها فرجعت إليه فقال: ارجع إلى ربك فإن امتك لا تطيق ذلك فراجعته فقال: هي خمس وهي خمسون لا يبدل القول لدي فرجعت إلى موسى فقال: راجع ربك. فقلت: استحييت من ربي ثم انطلق بي حتى انتهي إلى سدرة المنتهى وغشيها الوان لا ادري ما هي؟ ثم ادخلت الجنة فإذا فيها جنابذ اللؤلؤ وإذا ترابها المسك. متفق عليه وَعَن ابْن شهَاب عَن أنسٍ قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُرِجَ عني سقفُ بَيْتِي وَأَنا بِمَكَّة فَنزل جِبْرِيل فَفَرَجَ صَدْرِي ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٌ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهُ فِي صَدْرِي ثُمَّ أَطْبَقَهُ ثُمَّ أَخَذَ بيَدي فعرج بِي إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا. قَالَ جِبْرِيلُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ: افْتَحْ. قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ جِبْرِيلُ. قَالَ: هَل مَعَك أحد؟ قَالَ: نعم معي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ فَلَمَّا فَتَحَ عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا إِذَا رَجُلٌ قَاعِدٌ عَلَى يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ وَعَلَى يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ إِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شَمَالِهِ بَكَى فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ. قُلْتُ لِجِبْرِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا آدَمُ وَهَذِهِ الْأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ فَأَهْلُ الْيَمين مِنْهُم أهل الْجنَّة والأسودة عَن شِمَاله أهلُ النَّار فَإِذا نظر عَن يَمِينِهِ ضَحِكَ وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شَمَالِهِ بَكَى حَتَّى عَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ فَقَالَ لِخَازِنِهَا: افْتَحْ فَقَالَ لَهُ خَازِنُهَا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُ قَالَ أَنَسٌ: فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَاوَاتِ آدَمَ وَإِدْرِيسَ وَمُوسَى وَعِيسَى وَإِبْرَاهِيمَ وَلَمْ يُثْبِتْ كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ غَيْرَ أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا حَبَّةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَا يَقُولَانِ. قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «ثمَّ عرج بِي حَتَّى وصلت لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ فِيهِ صَرِيفَ الْأَقْلَامِ» وَقَالَ ابْنُ حَزْمٍ وَأَنَسٌ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَفَرَضَ اللَّهُ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلَاةً فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى. فَقَالَ: مَا فَرْضُ اللَّهِ لَكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِينَ صَلَاةً. قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِن أُمَّتكَ لَا تطِيق فراجعت فَوَضَعَ شَطْرَهَا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقُلْتُ: وَضَعَ شَطْرَهَا فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ فَوَضَعَ شَطْرَهَا فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَرَاجَعْتُهُ فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ. فَقُلْتُ: اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي ثُمَّ انْطُلِقَ بِي حَتَّى انْتُهِيَ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ؟ ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابن شہاب، انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا: ابوذر رضی اللہ عنہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں مکہ میں تھا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی تو جبریل ؑ نازل ہوئے انہوں نے میرا سینہ چاک کیا، پھر اسے آب زم زم کے ساتھ دھویا، پھر وہ حکمت و ایمان سے بھری ہوئی سونے کی طشت لائے، اسے میرے سینے میں ڈال دیا، پھر اسے جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے گئے، جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبریل نے آسمان کے محافظ سے کہا، دروازہ کھولو، اس نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ فرمایا، جبریل، اس نے پوچھا: آپ کے ساتھ کوئی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا ان کی طرف بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، جب دروازہ کھول دیا گیا تو ہم آسمان دنیا پر چلے گئے، وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا کچھ لوگ اس کے دائیں طرف تھے اور کچھ اس کے بائیں طرف، جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب اپنی بائیں جانب دیکھتے تو رونا شروع کر دیتے، انہوں نے کہا: خوش آمدید نبی صالح اور بیٹے صالح، میں نے جبریل ؑ سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا: یہ آدم ؑ ہیں، اور ان کے دائیں اور بائیں جانب جو گروہ ہیں، یہ ان کی اولاد کی روحیں ہیں، ان کے دائیں طرف والا گروہ اہل جنت کا ہے، اور ان کے بائیں طرف والا گروہ جہنمیوں کا ہے، جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے ہیں تو مسکراتے ہیں، اور جب اپنی بائیں جانب دیکھتے ہیں تو رو دیتے ہیں، پھر مجھے دوسرے آسمان تک لے جایا گیا، جبریل ؑ نے اس کے محافظ سے کہا: دروازہ کھولو، اس کے محافظ نے بھی انہیں ویسے ہی کہا جیسا پہلے آسمان والے محافظ نے کہا تھا۔ “ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذکر فرمایا کہ انہوں نے آسمانوں میں آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم ؑ سے ملاقات کی، اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے یہ بیان نہیں کیا کہ ان کی منازل کیسی ہیں، البتہ انہوں نے یہ ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آدم ؑ کو آسمان دنیا پر اور ابراہیم ؑ کو چھٹے آسمان پر پایا، ابن شہاب نے بیان کیا، ابن حزم نے مجھے خبر دی کہ ابن عباس اور ابوحبہ انصاری رضی اللہ عنہ دونوں بیان کیا کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پھر مجھے اوپر لے جایا گیا حتیٰ کہ میں اس قدر بلند جگہ پر پہنچ گیا کہ میں قلموں کے لکھنے کی آواز سنتا تھا۔ “ ابن حزم اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، میں یہ (حکم) لے کر واپس ہوا، اور میرا گزر موسی ؑ کے پاس سے ہوا تو انہوں نے فرمایا: اللہ نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں، انہوں نے فرمایا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت طاقت نہیں رکھے گی، انہوں نے مجھے واپس لوٹا دیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان (نمازوں) کا کچھ حصہ کم کر دیا، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو میں نے بتایا کہ اس نے ان میں سے کچھ کم کر دی ہیں، انہوں نے فرمایا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکے گی، میں واپس گیا اور اپنی بات دہرائی تو اس نے ان میں سے کچھ اور کم کر دیں، میں پھر ان کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے فرمایا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، میں نے پھر اس سے درخواست کی تو اس نے فرمایا: وہ (ادائیگی میں) پانچ ہیں اور (ثواب میں) وہ پچاس ہیں میرے ہاں بات تبدیل نہیں کی جاتی، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا: اپنے رب کے پاس پھر جائیں، میں نے کہا: مجھے اپنے رب کے (پاس بار بار جانے) سے شرم آتی ہے، پھر مجھے سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا، کئی رنگوں نے اسے ڈھانپ رکھا تھا، میں نہیں جانتا وہ کیا ہیں؟ پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا، وہاں موتیوں کے گنبد تھے اور اس کی مٹی کستوری کی تھی۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (349) و مسلم (263/ 163)»