وعنه قال اتى النبي صلى الله عليه وسلم بلحم فرفع إليه الذراع وكانت تعجبه فنهس منها نهسة ثم قال: «انا سيد الناس يوم القيامة يوم يقوم الناس لرب العالمين وتدنو الشمس فيبلغ من الغم والكرب ما لا يطيقون فيقول الناس الا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم؟ فياتون آدم» . وذكر حديث الشفاعة وقال: «فانطلق فآتي تحت العرش فاقع ساجدا لربي ثم يفتح الله علي من محامده وحسن الثناء عليه شيئا لم يفتحه على احد قبلي ثم قال يا محمد ارفع راسك وسل تعطه واشفع تشفع فارفع راسي فاقول امتي يارب امتي يارب فيقال يا محمد ادخل من امتك من لا حساب عليهم من الباب الايمن من ابواب الجنة وهم شركاء الناس فيما سوى ذلك من الابواب» . ثم قال: «والذي نفسي بيده إن ما بين المصراعين من مصاريع الجنة كما بين مكة وهجر» . متفق عليه وَعَنْهُ قَالَ أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً ثُمَّ قَالَ: «أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَوْمَ يَقُومَ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالمين وتدنو الشَّمْس فَيبلغ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ فَيَقُولُ النَّاس أَلا تنْظرُون من يشفع لكم إِلَى ربكُم؟ فَيَأْتُونَ آدَمَ» . وَذَكَرَ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ وَقَالَ: «فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ أُمَّتِي يارب أمتِي يارب فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ» . ثُمَّ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا تو اس سے ایک دستی آپ کی خدمت میں پیش کی گئی، جبکہ دستی آپ کو پسند تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دانتوں سے ایک بار اسے نوچا، پھر فرمایا: ”روزِ قیامت مَیں تمام لوگوں کا سردار ہوں گا، اس دن تمام لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے، سورج قریب ہو جائے گا، اور لوگ غم و تکلیف کی انتہا کو پہنچ جائیں گے، تمام لوگ کہیں گے، کیا تمہیں ایسا کوئی شخص نظر نہیں آتا ہے جو تمہارے رب کے ہاں تمہاری سفارش کرے، چنانچہ وہ آدم ؑ کے پاس آئیں گے، اور پھر آگے حدیث شفاعت بیان کی، اور فرمایا: ”میں جاؤں گا اور عرش کے نیچے پہنچوں گا تو اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا، پھر اللہ اپنی حمد و ثنا کے ایسے کلمات مجھے سکھائے گا جو اس نے مجھ سے پہلے کسی کو نہیں سکھائے ہوں گے، پھر وہ فرمائے گا: محمد! اپنا سر اٹھائیں، سوال کریں، آپ کا سوال پورا کیا جائے گا، اور سفارش کریں تمہاری سفارش قبول کی جائے گی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اور کہوں گا، رب جی! میری امت، رب جی! میری امت، رب جی! میری امت، کہا جائے گا: محمد! آپ اپنی امت کے ان افراد کو، جن پر کوئی حساب نہیں، ابواب جنت میں سے دائیں دروازے سے داخل کیجئے، حالانکہ انہیں اس کے علاوہ دیگر دروازوں سے لوگوں کے ساتھ گزرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ “ پھر فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت کے دروازے کی دہلیز کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4712) و مسلم (327 / 194)»