مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر

مشكوة المصابيح
طہارت کا بیان
حدیث نمبر: 544
Save to word اعراب
عن عكرمة: إن ناسا من اهل العراق جاءوا فقالوا يا ابن عباس اترى الغسل يوم الجمعة واجبا قال لا ولكنه اطهر وخير لمن اغتسل ومن لم يغتسل فليس عليه بواجب. وساخبركم كيف بدء الغسل: كان الناس مجهودين يلبسون الصوف ويعملون على ظهورهم وكان مسجدهم ضيقا مقارب السقف إنما هو عريش فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم حار وعرق الناس في ذلك الصوف حتى ثارت منهم رياح آذى بذلك بعضهم بعضا. فلما وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الريح قال: «ايها الناس إذا كان هذا اليوم فاغتسلوا وليمس احدكم افضل ما يجد من دهنه وطيبه» . قال ابن عباس: ثم جاء الله بالخير ولبسوا غير الصوف وكفوا العمل ووسع مسجدهم وذهب بعض الذي كان يؤذي بعضهم بعضا من العرق. رواه ابو داود عَن عِكْرِمَة: إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ جَاءُوا فَقَالُوا يَا ابْنَ عَبَّاسٍ أَتَرَى الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبًا قَالَ لَا وَلَكِنَّهُ أَطْهَرُ وَخَيْرٌ لِمَنِ اغْتَسَلَ وَمَنْ لَمْ يَغْتَسِلْ فَلَيْسَ عَلَيْهِ بِوَاجِبٍ. وَسَأُخْبِرُكُمْ كَيْفَ بَدْءُ الْغُسْلِ: كَانَ النَّاسُ مَجْهُودِينَ يَلْبَسُونَ الصُّوفَ وَيَعْمَلُونَ عَلَى ظُهُورِهِمْ وَكَانَ مَسْجِدُهُمْ ضَيِّقًا مُقَارِبَ السَّقْفِ إِنَّمَا هُوَ عَرِيشٌ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ حَارٍّ وَعَرِقَ النَّاسُ فِي ذَلِكَ الصُّوفِ حَتَّى ثَارَتْ مِنْهُمْ رِيَاحٌ آذَى بِذَلِكَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا. فَلَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الرّيح قَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ إِذَا كَانَ هَذَا الْيَوْمُ فَاغْتَسِلُوا وَلْيَمَسَّ أَحَدُكُمْ أَفْضَلَ مَا يَجِدُ مِنْ دُهْنِهِ وَطِيبِهِ» . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ثُمَّ جَاءَ اللَّهُ بِالْخَيْرِ وَلَبِسُوا غَيْرَ الصُّوفِ وَكُفُوا الْعَمَلَ وَوُسِّعَ مَسْجِدُهُمُ وَذَهَبَ بَعْضُ الَّذِي كَانَ يُؤْذِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا مِنَ الْعَرَقِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل عراق سے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے عرض کیا: ابن عباس! کیا آپ جمعہ کے روز غسل کرنا واجب سمجھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، لیکن پاکیزگی کا باعث اور بہتر ہے، اور جو شخص غسل نہ کرے تو اس پر واجب نہیں، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ غسل کا آغاز کیسے ہوا، لوگ محنت کش تھے، اونی لباس پہنتے تھے، وہ اپنی کمر پر بوجھ اٹھاتے تھے، ان کی مسجد تنگ تھی اور چھت اونچی نہیں تھی، بس وہ ایک چھپر سا تھا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گرمیوں کے دن تشریف لائے تو لوگ اس اونی لباس میں پسینے سے شرابور تھے، حتیٰ کہ ان سے بو پھیل گئی اور وہ ایک دوسرے کے لیے باعث اذیت بن گئی، چنانچہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بو محسوس کی تو فرمایا: لوگو! جب یہ (جمعہ کا) دن ہو تو غسل کرو اور جو بہترین تیل اور خوشبو میسر ہو وہ استعمال کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر اللہ نے مال عطا کر دیا تو انہوں نے غیر اونی کپڑے پہن لیے�� کام کرنے کی ضرورت نہ رہی۔ ان کی مسجد کی توسیع کر دی گئی اور ایک دوسرے کو اذیت پہنچانے والی وہ پسینے کی بو جاتی رہی۔ حسن، رواہ ابوداؤد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«حسن، رواه أبو داود (353) [وصححه ابن خزيمة (1755) و الحاکم علٰي شرط البخاري (1/ 280، 281) ووافقه الذهبي (!) و حسنه الحافظ في فتح الباري (2/ 362)]»

قال الشيخ زبير على زئي: حسن


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.