وعن بهز بن حكيم عن ابيه عن جده قال: قلت: يا رسول الله من ابر؟ قال: «امك» قلت: ثم من؟ قال: «امك» قلت: ثم من؟ قال: «امك» قلت: ثم من؟ قال: «اباك ثم الاقرب فالاقرب» رواه الترمذي وابو داود وَعَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جدَّه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: «أُمَّكَ» قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «أُمَّكَ» قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «أُمَّكَ» قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «أَبَاكَ ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
بہز بن حکیم اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے۔ “ میں نے عرض کیا، پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی والدہ کے ساتھ۔ “ میں نے عرض کیا، پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں کے ساتھ۔ “ میں نے عرض کیا، پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں کے ساتھ۔ “ میں نے عرض کیا، پھر کس کے ساتھ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے والد کے ساتھ، پھر قریب ترین اور پھر قریب تر رشتے دار کے ساتھ (اچھا سلوک کر)۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1897 وقال: حسن) و أبو داود (5139)»