وعن عبد الله بن عمرو قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اصاب غنيمة امر بلالا فنادى في الناس فيجيئون بغنائمهم فيخمسه ويقسمه فجاء رجل يوما بعد ذلك بزمام من شعر فقال: يا رسول الله هذا فيما كنا اصبناه من الغنيمة قال: «اسمعت بلالا نادى ثلاثا؟» قال: نعم قال: «فما منعك ان تجيء به؟» فاعتذر قال: «كن انت تجيء به يوم القيامة فلن اقبله عنك» . رواه ابو داود وَعَن عبدِ الله بنِ عَمْروٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصَابَ غَنِيمَةً أَمَرَ بِلَالًا فَنَادَى فِي النَّاسِ فَيَجِيئُونَ بِغَنَائِمِهِمْ فَيُخَمِّسُهُ وَيُقَسِّمُهُ فَجَاءَ رَجُلٌ يَوْمًا بَعْدَ ذَلِكَ بِزِمَامٍ مِنْ شَعَرٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا فِيمَا كُنَّا أَصَبْنَاهُ مِنَ الْغَنِيمَةِ قَالَ: «أَسْمَعْتَ بِلَالًا نَادَى ثَلَاثًا؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «فَمَا مَنَعَكَ أَنْ تَجِيءَ بِهِ؟» فَاعْتَذَرَ قَالَ: «كُنْ أَنْتَ تَجِيءُ بِهِ يومَ القيامةِ فلنْ أقبلَه عَنْك» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مالِ غنیمت ملتا تو آپ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرماتے تو وہ عام اعلان کرتے جس پر صحابہ کرام وہ مال غنیمت لے کر حاضر ہوتے جو ان کے پاس ہوتا، آپ اس میں سے خمس نکالتے اور اسے تقسیم کرتے، چنانچہ ایک آدمی اس سے ایک روز بعد بالوں سے بنی ہوئی ایک لگام لے کر آیا اور عرض کیا، اللہ کے رسول! مالِ غنیمت میں ملنے والے مال میں یہ بھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے بلال رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ اعلان کرتے ہوئے سنا تھا؟“ اس نے عرض کیا، جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر کس چیز نے تجھے اسے لانے سے منع کیا؟“ اس نے معذرت پیش کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اب تم اسے قیامت کے روز لاؤ گے، میں اسے تم سے ہرگز قبول نہیں کروں گا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2712)»